”یہ نوجوانوں کا معاشرہ ہے”

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے اہل افراد کی تعداد 12 کروڑ 69 لاکھ سے زیادہ ہوچکی جن میں نوجوان ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں عام نوجوانوں کی عدم موجودگی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے۔بقول اقبال:
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اب سوال یہ ہے کہ نوجوانوں کو مواقع دینے کے وعدے کرنے والی سیاسی جماعتیں انہیں ٹکٹ دینے سے ہچکچاتی کیوں ہیں؟ایسے میں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ1977ء تک پاکستان میں انتخابات جیتنا ایک عام نوجوان کی رسائی میں تھا تو وہ کیا وجوہات بنیں جن کے باعث اب یہ امر پہنچ سے دور ہے اور آج ایک عام نوجوان کو الیکشن لڑنے کے لیے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ میرے خیال میں نہ تو وہ اثرورسوخ والے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی امیر ہیں۔اس لئے وہ الیکشن میں لڑے بھی تو ہار جائینگے ۔اب سوال یہ ہے کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کسی ایسی سیاسی پارٹی سے آپنے مستقبل کی امیدیں کیونکر وابستہ کرے گی جس کی قیادت کرنے والے قائد یا چیئرمین پہلے ہی ریٹائرمنٹ کی عمر سے کافی اوپر جاچکے ہیں ؟سیاسی میدان میں موجود لیڈر شپ کھبی یہ بھی سوچے گی کہ قیادت کرنے کیلئے اب وہ بوڑھے ہوچکے ہیں؟نیوروسائنس اور علم نفسیات سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کی عمر بڑھنے کے ساتھ ان کی ذہنی کارکردگی وسیع پیمانے پر اثرانداز اور مختلف ہوتی ہے جس سے یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا کوئی شخص بڑھاپے میں قیادت کرنے کے لائق ہو بھی سکتا ہے یا نہیں،کیونکہ کچھ مہارتیں عمر کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہیں ۔آج کل پی پی پی،پی ٹی آئی ،اور ن لیگ کو بلاول ،بیرسٹر گوہر،اور مریم نواز کی قیادت میسر ہے مگر ان پارٹیوں میں اہم اور بڑے فیصلے آصف علی زرداری ،عمران خان اور نواز شریف کی آشیرباد کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔بہرحال بڑھاپے کے حوالے سے سب خبریں بری بھی نہیں ہے کچھ ایسے پہلو ہیں جہاں پرانے یعنی بوڑھے افراد کے دماغ دراصل بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں ۔8فروری 2024ء کے عام انتخابات میں نوجوانوں نے مؤثر کردار ادا کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوان انتخابات کے نتائج اور ملک کی مستقبل کی سمت کو متاثر کرنے کی نمایاں صلاحیت رکھتے ہیں۔یاد رہے نوجوانوں کا ووٹ حاصل کرنا کسی بھی سیاسی جماعت یا امیدوار کیلئے اہم ہے۔نوجوانوں کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں اور امیدوار وں کو نوجوانوں کے مسائل اور خدشات جیسے کہ تعلیم ،روزگار،صحت ،ماحولیات،تحفظ ،وغیرہ کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔انہیں مختلف پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کے ساتھ مؤثر اور قائل کرنے کے ساتھ بات چیت کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔انہیں نوجوانوں کے تنوع اور حرکیات کا احترام اور ان کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں ملک کے مستقبل کیلئے ایک وژن اور آواز پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔نوجوانوں کے جتنے زیادہ ووٹ ہونگے پاکستان میں جمہوریت اتنی ہی زیادہ فعال ہوگی۔سیاسی تاریخ میں طلبا کا اہم کردار رہا ہے۔جدوجہد آزادی میں بھی نوجوانوں کے دستے ہی آگے آگے تھے۔برصغیر کی ایک صدی پر محیط پر آشوب سیاسی صورتحال کا اگر ہم بہ نظر غائر جائزہ لیں تو اس خطے کو غلامی اور انگریز کے تسلط سے آزاد کرانے میں دیگر افراد کیساتھ ساتھ نوجوانوں کا کردار بڑا جاندار وشاندار رہا ہے۔وطن عزیز پاکستان اسی وقت سیاسی ومعاشی لحاظ سے نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے سوال یہ ہے کہ اب الیکشن کے بعد نوجوان کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ؟معاشی استحکام سیاسی استحکام سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور سیاسی استحکام تب ہوتا ہے جب ایک دوسرے کو قبول کیا جائے،دلوں میں نفرت پیدا نہ کی جائے لیکن اب تو سیاست میں عدم برداشت کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے ،گالی گلوچ،الزام تراشی اور ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اچھالنا عام ہوتا جارہا ہے۔ان حالات میں نوجوانوں میں سیاسی شعور پیدا کرنا،انہیں سرگرم کرنا بہت ضروری ہے ۔نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ سیاست کے میدان کو استعمال کرتے ہوئے ملک وملت کا رخ بدلنے کی کوشش کریں،جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے نوجوان فعال کردار ادا کریں،سسٹم کو برا کہنے سے سسٹم نہیں بدلتا بلکہ سسٹم کا حصہ بننے سے بدل سکتا ہے ۔نوجوان اس پر غور کریں،عمل کریں اور سیاست کا حصہ ضرور بنیں لیکن نعرے لگانے اور جھنڈے اٹھانے کی حد تک نہیں بلکہ اپنا ویژن بنائیں۔مسائل اور حقوق کی بات کریں،ملک میں تبدیلی لانے کیلئے آگے بڑھیں۔اپنے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ رکھیں ۔ملک وقوم کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔کوشش کریں کہ ملک میں ایسے سیاسی کلچر کو فروغ دیں،سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ،الزام تراشیوں،لڑائی جھگڑوں سے لطف اندوز نہ ہوں بلکہ کچھ ایسا کریں کہ نفرتیں،لڑائیں،عدم برداشت ختم ہوں۔ قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا کردار اسی طرح سے بیان کرتا ہے ،وہ چند نوجوان تھے جنہوں نے وقت کے ظالم حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لاکر حق پرستی کا اعلان کیا،ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانے میں جو کردار ادا کیا وہ تمام نوجوانوں کیلئے نمونہ عمل ہے۔عمران خان نے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو سیاسی اعتبار سے متحرک کیا ہے،ایسے نوجوان جنہیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ،سماجی سطح پر بھی سیاسی تربیت کا کوئی ادارہ موجود نہیں ۔نئی نسل ایسی باتوں سے بے خبر ہے کہ آئین کیا ہوتا ہے اور ایک مستحکم سماج کیلئے اس کی کیا اہمیت ہے؟ ۔عمران خان نے اسی نسل کو اپنا مخاطب بنایا ،یہ نسل سماجی کام اور سیاست دونوں میں کبھی متحرک نہیں تھی جب عمران خان نے کہا تو ہسپتال کیلئے چندہ جمع کرنا شروع کردیا ۔انہوں نے سیاسی جماعت بنائی تو سیاست سے عدم مناسبت کے باعث یہ نسل طویل عرصہ ان سے لاتعلق رہی،یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے ان کی شخصی کشش کو ایک طلسم کدے میں بدلنے کا فیصلہ کر لیا ۔مثال کے طور پر ہسپتال کی تعمیر کو ایک محیر العقل واقعہ بناکر پیش کیا گیا۔لوگوں نے انفرادی حیثیت میں ایثار کیا اور اجتماعی طور پر بھی۔بتانا یہ ہے کہ ان کی شخصی کشش کو کس طرح ایک سیاسی رومان میں بدلا گیا ۔اب وہ نوجوان سیاست میں بھی ان کا ہم سفر بن گیا جو کبھی ہسپتال کے لئے چندہ جمع کرتا تھا ۔اسی نوجوان نے عمران خان کی محبت میں سیاست کا رخ کیا اور عمران خان نے نوجوانوں کی نفسیات کے عین مطابق ان میں ہیجان پیدا کیا اور پوسٹ ٹروتھ کا حربہ استعمال کیا ۔یاد رہے وہ حکومت جو اخلاقی معاملات سے لاتعلق رہتی ہے وہ پھر انسانوں پر نہیں بلکہ جمادات پر حکومت کرتی ہے۔میرا تجربہ یہ ہے کہ آنی والی حکومت سے یا تو نوجوان مایوس ہو کر ایک بار پھر سیاست کو خیرباد کہیںگے یا شاخ امید کو ہری رکھتے ہوئے اس کا خیال ہے کہ بس آئندہ چند سالوں میں خوشحالی اس کے دروازے پر دستک دینے والی ہے۔البتہ نوجوان اس بات میں متفق دکھائی دیتے ہیں کہ کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ہم جیسے لوگوں کی بات تو وہ ابھی نہیں سنیں گے،سیاست میں عام طور پر دروازے بند نہیں کئے جاتے،حالات کے مطابق حکمت عملی تبدیل بھی کی جاسکتی ہے۔جو حالات آج ہیں ضروری نہیں کہ کل بھی ایسے ہی ہوں۔ہمیں توقع کرنی چاہیے کہ ملک میں سکون ہوگا۔

مزید پڑھیں:  پراسرار آتشزدگی