ہائے اس زود پشیماں کاپشیماں ہونا

انتخابی شکست کے بعد جے یو آئی کے سربراہ نے سابق آرمی چیف اور حساس ادارے کے اس وقت کے سابق سربراہ کی طرف توپوں کا جو رخ کیاہے وہ کسی انکشاف کے زمرے میں نہیں آتا یہ نوشتہ دیوار تو بچے بچے نے پڑھا ہوا تھا ور زبان زد خاص و عام تھا ایسا لگتا ہے کہ ان کا بے وقت کا کلمہ حق پوری طرح کلمہ حق نہیں بلکہ ادھورا اور مصلحت آمیز اس لئے ہے کہ موصوف حساس ادارے کے جس سربراہ کی بات کر رہے ہیں تحریک عدم اعتماد کے وقت وہ محولہ ادارے کے سربراہ نہیں تھے اس حوالے سے تحریک انصاف کے بانی سربراہ کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ ان کے خلاف کھیل ان کے پسندیدہ وبااعتماد سربراہ ادارہ کو تبدیل کرنے کے بعد کھیلا گیا نیز بطور وزیر اعظم انہوں نے اپنے بااعتماد شخصیت کا تبادلہ رکوانے کے لئے بھی تاخیری حربے استعمال کئے تھے مثبت امر یہ ہے کہ مقتدرہ کو للکارنے کے ایک آدھ دن بعد ہی جے یو آئی کے سربراہ نے اپنی قیادت میں سیاسی اتحاد کی ملی بھگت تسلیم کی نیز سیاست و حکومت میں مداخلت کی بھی گواہی دی کہ اسی عطار کے لڑکے سے دوا لے کر ہی ایک حکومت ہی کو رخصت نہیں کیاگیا بلکہ خود حکومتی عہدوں میں زائد حصہ بقدر جثہ خود جے یو آئی کے سربراہ بلکہ ان کے خاندان کاتھا جو کہوار بولی کے ضرب المثل بھیڑیا کے ساتھ کھا کر مالک کے ساتھ رونے کا مصداق ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو جب مقتدرہ سے مطلب ہوتا ہے تو وہ ان کی طرف بھاگے جانے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتیں اور اگر ان کی طرف سے سرد مہری اختیار ہو تو انگشت نمائی اور الزامات شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ جے یو آئی کے امیدواروں کی ہار کے بعد ماضی کے دشمن آج کے دوست اور شیر و شکر ہوتے نظر آتے ہیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ سیاسی جماعتوںکے قلیل مدتی مفادات کی تکمیل کے دوران غیر منتخب قوتوں کے ساتھ ان اتحادوں نے پاکستانی جمہوریت کو طویل مدتی نقصان پہنچایا ہے۔پاکستانی سیاست کو متاثر کرنے والے مسلسل بحرانوں سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ طاقتور حلقے سیاسی پارٹیاں بنانا اور ان کی سرپرستی کرنا بند کریں اور عوام کے حقیقی منتخب نمائندوں کو اس ملک کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے دیں۔سیاستدانوں کواب اس نتیجے پر پہنچنا چاہئے کہ غیر نامیاتی تخلیقات پائیدار نہیں ہوتے اور نظام میں بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری کے باوجود، ووٹروں کی طرف سے مسترد کر دیا جاتا ہے۔ صرف وہی سیاسی قوتیں پھلتی پھولتی ہیں جو یا تو اپنے تخلیق کاروں سے منہ موڑ لیتی ہیں، یا صرف عوام کی طرف نظر کرتی ہیں۔جس دن ملک کی سیاسی جماعتوں کو کلی طور پر آلودگی کا شکار سیاست کرنے کی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اپنے بل بوتے پر سیاست کرنے کا آغاز کریں مقتدرہ خود بخود پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گی ایک کندھا تھک جائے تو دوسرے کندھا پیش کرنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہوتو مقتدرہ باری باری سواری کا لطف چھوڑنے پر کبھی بھی تیار نہیں ہو گی۔اس وقت سیاسی تقطیب کی جو کیفیت ہے قطع نظر اس میں مقتدرہ کے کردار کا سیاسی جماعتیں دوسروں کو الزام دینے کی بجائے اپنے اپنے گریبانوں میں خود کیوں نہیں جھانکتیں بجائے اس کے کہ وہ عطار کے لڑکے سے دوا لینے کو مرض اقتدار کی دوا سمجھنے کے انتخابی وعوامی حقیقتوں کو تسلیم کرنے کی طرف خود مائل کیوں نہیں ہوتے اگر تحریک انصاف کنارے لگنے کے بعد جے یو آئی جیسی جماعت سے پینگیں بڑھا سکتی ہے تو دوسری سیاسی جماعتوں سے مکالمہ کرنے میں کیا امرمانع ہے سیاسی جماعتیں باہم مل بیٹھ کر میثاق جمہوریت کیوں نہیں کر لیتیں جس کے بعد ملکی ضرورت میثاق معیشت کی خود بخود راہ ہموار ہوگی ملک میں سیاسی بحران اور تقطیب کا خاتمہ ہو تو معیشت استحکام کی طرف ہی نہیں آئے گا بلکہ سیاسی بندی گری اور سیاسی تقطیب کی صورتحال میں بھی بہتری آئے گی انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ تھم جائے گا ایک دوسرے سے خوف نہ ہوتوملک میں سیاست ایسی پٹڑی پر چڑھ سکتی ہے جس کی منزل کسی جیل کی بجائے ایوان و پارلیمان ہو گی حکومت نہ بھی ملے تو حزب اختلاف کا آئینی اور اہم کردار تو یقینی ملنا ہوتا ہے جب تک سیاستدان سیاست کی بجائے ”وکالت” کرتے رہیں گے تب تک ملک میں جمہوریت اورجمہوری سیاست کا یہی حشر ہوتا رہے گا اور یکے بعد دیگرے حکومتیں کمزور اور عدم استحکام ہی کا شکار ہوتی رہیں گے سیاستدان دست و گریباںرہیں گے اور راوی چین ہی چین لکھتا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  بار بار کی خلاف ورزیاں