سنگ آمد و سخت آمد

اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی ٹیرف میں بروقت اضافے کی یقین دہانی کرا دی ہے جس کے تحت جولائی کے مہینے سے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے، قیمتوں میں اضافہ ماہانہ ،سہ ماہی اور سالانہ ایڈجسٹمنٹ ہوگی جس کا واضح مطلب ہے کہ عوام پر مزید مہنگائی مسلط کی جا رہی ہے، ذرائع کے مطابق حکومت نے ٹیکس ریونیو بڑھانے کیلئے معیشت کو بتدریج دستاویزی شکل دینے کی بھی یقین دہانی کرا دی ہے اور فریقین کے درمیان اگلے ہفتے سٹاف لیول معاہدے کا امکان ہے، آئی ایم ایف نے سخت مانیٹری پالیسی اور مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ کی پالیسی برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا جبکہ آئی ایم ایف وفد نے معاشی استحکام کے تسلسل کیلئے ضروری اصلاحات جاری رکھنے پر زور دیا، مذاکرات کی کامیاب تکمیل پر ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے پاکستان کو آخری قست ملے گی، جہاں تک بجلی کے نرخوں میں مزید اور مسلسل اضافے کا تعلق ہے یعنی ماہانہ ،سہ ماہی اور سالانہ ایڈجسٹمنٹ تو اس سے ملک میں مہنگائی کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہوگا جس کے اثرات عام آدمی پر شدید مہنگائی کی صورت مرتب ہوں گے، بدقسمتی سے ایک جانب سابقہ حکومتوں کیساتھ ساتھ موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر عوامی سطح پر ہمیشہ تنقید ہوتی رہی ہے، یعنی مرات یافتہ طبقوں کو مفت بجلی کے مجموعی طور پر لاکھوں یونٹ کی فراہمی سے آسانیاں باہم پہنچانے اور اس کے مقابلے میں عام غریب عوام کو مسلسل مہنگی بجلی مہیا کرنے سے حالات سنگین صورت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں، بجلی اور گیس کے سیکٹرز میں عوام پر تھوپنے والی مشکلات جہاں ایک جانب بلاواسطہ ان کے بلوں میں اضافہ ہوتا ہے وہیں دوسری جانب قیمتوں میں مسلسل اضافے سے صنعتی شعبے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور صنعتی شعبے کے اخراجات بڑھنے سے برآمدات پر شدید منفی اثرات پڑھتے ہیں، ہماری مصنوعات عالمی مارکیٹ میں اپنی بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیںرہتیں، جس کا نقصان برآمدی سودوں سے ممکن طور ممکنہ طور پر حاصل ہونے والے زر مبادلہ میں کمی کی وجہ سے ملکی معیشت مزید دباؤ میںآجاتی ہے جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہوتے رہتے ہیں اور ہم بیرونی قرضوں کی اقساط بروقت جمع کرانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، اس کا نتیجہ پہلے سے لئے ہوئے قرضوں کی اصل اقساط کو تو رکھئے ایک طرف، ان قرضوں پر چڑھنے والے سود میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہی وہ مشکل ترین صورتحال ہے جو قرضوں پر سود کی ادائیگی میں ناکامی کی وجہ سے ملک کے( خدانخواستہ) بریکٹ ڈیفالٹ ہونے کے خدشات بڑھتے رہتے ہیں، سوشل میڈیا پر مخصوص مرات یافتہ طبقات کو جس طرح بجلی ،گیس اور ان کی گاڑیوں کیلئے مفت پٹرول میں بے پناہ مراعات کے بارے میں تفصیلات سامنے آرہی ہیں، اگر ان” بے جا ” مرعات کو ختم یا بہت ہی کم کر دیا جائے تو اس سے سالانہ اخراجات میں بہت کمی ہو سکتی ہے اور قومی خزانے پر بے جا بوجھ پڑنے سے نجات مل سکتی ہے جو ظاہر ہے عوام کیلئے یوٹیلیٹی بلوں میں ریلیف کا باعث بن سکتی ہیں ،خبروں کے مطابق آئی ایم ایف وفد کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ رواںمالی سال گیس شعبے کے گردشی قرضے میں اضافہ نہیں ہونے دیا گیا ،حکومت نے وفد کو بتایا کہ حکومت گیس کے شعبے میں اصلاحات اور توانائی منصوبے پر کام کر رہی ہے، توانائی شعبے میں سرمایہ کاری اور مقامی وسائل پر انحصار حکومت کی ترجیح ہے، پاکستان کا سالانہ پیٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل ساڑھے 17ارب ڈالر پر پہنچ چکا ہے، آئندہ مالی سال کے دوران وفاقی بجٹ میں پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھانے کی تجویز بھی زیر غور آئی ،حکام نے آئی ایم ایف کو گیس شعبے کے گردشی قرضوں میں کمی اور گیس کی قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ بروقت کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی، درایںحالات اس بات کا اندازہ کرنے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ آئندہ بجٹ میں عوام کیلئے کسی خیر کی توقع نہیں ہے اور اگلے مالی سال سے کمر توڑ مہنگائی کے امکانات بڑھ رہے ہیں، تاہم اگر حکومت چاہے تو جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے مرعات یافتہ طبقات پر بھی کچھ بوجھ منتقل کر دیا جائے تو عوام کو کسی حد تک ریلیف دیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ہند چین کشیدگی