وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے اختلافات ساتھ لے کر نہیں چل سکتے ۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ پولرائزیشن سے ہٹ کر عصر حاضر کی سیاست کی طرف بڑھنا ملکی ضرورت ہے۔ ایسا سیاسی ماحول بنانا ہوگا جس میں سب کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے، ملک کو آگے لے کر جانے کے لئے تقسیم سے نکلنا ہوگا۔ صدر مملکت نے کہا کہ ہم حقیقی طور پر کوشش کریں تو سیاسی درجہ حرارت میں کمی لاسکتے ہیں، ہم سب کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملک کے لئے سب سے زیادہ اہم چیز کیا ہے۔سیاسی معاملات اور سیاسی مفاہمت کے حوالے سے صدرمملکت کے خیالات ان کے سیاسی کیریئر سے واضح ہیں ان کوسیاسی مفاہمت کا بادشاہ قرار دیا جاتا رہا ہے جس کا تقاضا ہے کہ وہ کوئی ایسا انہونی سیاسی قدم اٹھائیں جوانا کو توڑ کرملک میں سیاسی مفاہمت کی راہ ہموار کرے اس مقصد کے لئے ان کو خود پہل کرنا ہوگا اس لئے کہ اپنے آئینی عہدے کے لحاظ سے اب وہ پورے ملک کے صدر اور سیاسی مفادات سے بالاتر کردارکی ادائیگی کے لئے موزوں شخصیت ہیں ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کی سیاستدان جج قانون دان اور عوام سبھی کوشاں اور متمنی ہیں ایسے میں سیاسی مفادات پر جملہ سیاستدان اگرجمہوری کردار کو ترجیح دیں اور سیاسی اختلافات کے باوجود سیاسی تقطیب کے خاتمے آئین و قانون اور جمہور کی بالادستی کے لئے قدم بڑھانے پراتفاق کے لئے مفاہمت کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کریں تو اڈیالہ سے ایوان صدر کا راستہ دور نہیں اور بنی گالہ سے رائے ونڈاور رتوڈیرو کی طرف بھی را ہیں کھل جانا کوئی مشکل نہیں اصل مسئلہ ہی سیاسی کردار ہے جس کا مظاہرہ کیا جائے تو ملک ایک نئے سیاسی اور جمہوری دور میں داخل ہوسکتا ہے اس کا یہ ایک اچھا موقع بھی ہے کہ تقریباً ساری سیاسی جماعتیں ہی ڈسی ہوئی ہیں اور ان کو اس امر کا عملی تجربہ بھی ہو چکا ہے کہ حکومت اور سیاست میںرکاوٹوں کے باعث امور کیا ہیں اوران کرداروں کوکیسے لگام دیا جاسکتا ہے اس حوالے سے اجماع بھی پایا جاتا ہے صر ف پہل کی ضرورت باقی ہے ۔ دیکھا جائے تو جہاں ایک طرف وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام کی جہاں بہت ساری وجوہات اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار اور عام انتخابات میں مداخلت دھاندلی یہاں تک کہ بھاری رقوم لے کر نتائج کی تبدیلی جیسے سنگین عوامل ایک حقیقت ہیں وہاں خود سیاستدانوں کا اس ضمن میں باری باری آلہ کار بننے کا عمل بھی قابل معافی نہیں مشکل امر یہ ہے کہ ملکی سیاست کی تاریخ اس سے عبارت ہے ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ اس سے کہیں کم نظر آتا ہے جو کچھ گزرتے وقت کے ساتھ سامنے آنے لگا ہے ۔ ایسے میں صورتحال کا تقاضا ہے کہ اس سارے عمل کا راستہ روکنے کا تہیہ کیا جائے جس سے یکے بعد دیگرے سبھی کو واسطہ پڑتا آیا ہے۔جس کا تقاضا میثاق سیاست پر غور کرنے اور اس پرآمادگی اور عملی طور پر اس کے لئے پلیٹ فارم کا قیام اور پیشرفت ہے ملک میںسیاسی اتحاد کی تشکیل نئی بات نہیں اصل کام مرض کی تشخیص اور اس کا علاج ہے مرض تشخیص مشکل نہیں مرض معلوم ہے صرف اس کا علاج اورمستقل علاج باقی ہے اب منزل ہی پر جا کر دم لینے کا عزم اور استقامت کا مظاہرہ کیا جائے تو ملک میں سیاسی استحکام کے دور کی توقع کی جاسکتی ہے مگر یہ جملہ اہل سیاست کی دانش و خلوص کا امتحان ہو گا۔ سیاسی بحران کا خاتمہ بیانات دینے خطاب کرتے اور خواہش کا اظہار کرنے سے ممکن نہ ہوگا اس سے سیاسی کشیدگی میں کمی تو آسکتی ہے لیکن ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے کا تقاضا حقیقی معنوں میں عملی پیشرفت ہو گی جس کے لئے جس بھی جماعت کی طرف سے پہل ہوگی جمہوریت پسندی اور مفاہمت کا ہما بھی ا سی کے سر بیٹھے گا سابق صدر بھی اسی حوالے سے دردمندی کا اظہار کرتے رہے لیکن عملی طور پر ایوان صدر سے کوئی مہم شروع نہ ہوسکی موجودہ صدر کے خیالات بھی مختلف نہیں اورملک میں سیاسی کشیدگی کے باعث حکومت ومعیشت ایوان و عوام سبھی بے چینی کا شکار اور غیر مطمئن ہیں اس کے باوجود پیشرفت کی زیادہ توقع اس لئے نہیں کہ ہمارے سیاستدان کردار کے نہیں گفتار کے غازی رہے ہیں اور اسی عطار کے لڑکے سے ہی دوالینے پر راضی ہی نہیں کوشاں رہے ہیں جسے ام الامراض سمجھنے کے باوجود بھی علاج و پرہیز سے اجتناب روایت رہی ہے ۔ جبتک دست قاتل کوجھٹکنے کا فیصلہ اور اس پر مشترکہ عملدرآمد نہیں ہوتا خطاب ، تقاریر اور خواہشات و تمنائوں کے اظہار کے مواقع میں کمی نہیں آئے گی۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری