چار سنگین تر ہوتے مسائل

نومنتخب پارلیمنٹ کے پہلے مشترکہ اجلاس سے نئے پارلیمانی سال کا آغاز ہوگیا۔ گزشتہ روز مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنا ہوگا۔ پولرائزیشن سے ہٹ کر عصر حاضر کی سیاست کی طرف بڑھنا ہوگا۔ معیشت کی بحالی کے لئے سب حصہ ڈالیں۔ مسائل حل کرنے کے لئے بامعنی مذاکرات اور پارلیمانی اتفاق رائے درکار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی درجہ حرارت میں حقیقی کوششوں سے ہی کمی لائی جاسکتی ہے اسی سے سیاسی مفاہمت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ صدر مملکت جس وقت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی افہام و تفہیم کی اہمیت بیان کررہے تھے اس وقت ایوان میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ا رکان پارلیمنٹ سیٹیاں بجانے، نعرہ بازی اور ہنگامہ آرائی میں مصروف تھے جبکہ بعض ارکان ایوان میں باجے بجاتے رہے۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان نے سپیکر ڈائس کا گھیرائو بھی کیا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے اپنے ساتھیوں کی اس ہنگامہ آرائی کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری ایک پارٹی کے سربراہ ہیں ہم انہیں صدر تسلیم نہیں کرتے۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا تھا زرداری غیرقانونی صدر ہیں۔ گو کہ پارلیمان میں یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب کے دوران حزب اختلاف کا احتجاج پارلیمانی اور جمہوری روایات کا حصہ ہے مگر گزشتہ روز پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان پارلیمنٹ نے احتجاج کے نام پر جو کچھ کیا اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ایسی جماعت جس کا خمیر دوسری سیاسی جماعتوں سے شعوری اختلاف کی بجائے نفرتوں سے گندھا ہوا ہو اس کے ذمہ داران اور ارکان پارلیمنٹ سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ سیاسی اخلاقیات کو روند کر آگے بڑھننے کے نتائج کیا ہوسکتے ہے یہ کسی بھی ذی شعور شخص سے مخفی نہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر مملکت کے خطاب کے دوران شائستگی سے احتجاج سے آگے جانے والے پی ٹی آئی کے ارکان نے اس طرز عمل کا مظاہرہ جیل میں بند سابق وزیراعظم کی ہدایت پر کیا۔ جہاں تک اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب اور اس خطاب میں سیاسی بحران اور دیگر مسائل کے حوالے سے پیش کی گئی تجاویز کا تعلق ہے تو ان سے انکار ممکن نہیں۔ پاکستان میں اس وقت چار اہم ترین مسئلے ہیں اولا سیاسی عدم استحکام، ثانیا معاشی ابتری، ثالثا مہنگائی اور بیروزگاری، رابع دہشت گردی کی نئی لہر۔ ان مسائل پر قابو پانے کے لئے جس قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے اس سے آنکھیں چراکر عدم برداشت کی سیاست کو انقلاب کی بنیاد سمجھنے والے جمہوریت، نظام اور عوام کی کوئی خدمت نہیں کرپارہے بلکہ ان کے طرز عمل سے ملک میں جو فضا بنی ہوئی ہے اس کے تدارک میں جتنی تاخیر ہوگی نقصان اتنا ہی ہوگا۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی الزاماتی سیاست اور ہٹ دھرمی ہر دو نے معاشرے میں جس تقسیم کی بنیاد رکھی ہے وہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ وسیع ہوتی جارہی ہے۔ بادی النظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کی سیاست الزام تراشی اور خود پسندی سے عبارت ہے حالانکہ ایک بڑی سیاسی جماعت جو ایک صوبے میں برسراقتدار بھی ہو اس کی قیادت کو یہ سوچنا چاہیے کہ ملک کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان کا سنجیدہ حل تلاش کرنے میں تاخیر کے جو برے نتائج برآمد ہوں گے اس سے کسی کا دامن اور گھر محفوظ نہیں رہے گا۔ سیاسی اختلافات کا حل مفاہمت کے جذبے سے مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی سابق وزیراعظم عمران خان کی طرح ان کی جماعت کا ہر ادنی و اعلی مخالف سیاسی جماعتوں سے کسی قسم کی بات چیت کو نہ صرف غیرضروری خیال کرتا ہے بلکہ اس کا دعوی ہے کہ مخالف سیاسی جماعتوں خصوصا پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم سے کسی بھی طرح کی بات چیت ہماری اصولی سیاست سے انحراف ہوگا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جس طرح کے الزامات پی ٹی آئی اپنے سیاسی مخالفین پر ماضی میں ایجنسیوں کی بریفنگ کے زیراثر عائد کرتی آئی ہے آج پی ٹی آئی کے بانی ان کی اہلیہ اور چند دیگر ساتھیوں (ان میں سے کچھ مفرور ہیں) کو سامنا کرنا پڑرہا ہے ان الزامات پر ان کا موقف ہے یہ سیاسی انتقام ہے مگر ماضی میں ایجنسیوں کے فراہم کردہ الزامات الہامی کلمات تھے۔ ہماری دانست میں پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کے حمایت یافتہ ارکان اسمبلی کو اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی اپنے مخالفین سے سیاسی اختلاف وہ بھلے ہی رکھیں مگر ان اختلافات کو ذاتی دشمنی اور نفرت کی سیاست کا رزق نہ بنائیں۔ پاکستان کو جن چار گھبمیر بلکہ سنگین مسائل کا سامنا ہے انہیں حل کئے بغیر اصلاح احوال کا آغاز ہو یا تعمیرترقی کا دونوں ممکن نہیں اس لئے بہتر ہوگا کہ پی ٹی آئی اپنی طرز سیاست پر نظرثانی کرے تاکہ سنگین تر ہوتے مسائل کا سنجیدہ حل تلاش کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں:  من حیث القوم بھکاری