جنگلات کی غیر قانونی کٹائی کا نوٹس کون لے گا

خیبر پختونخوا میں دوسرے صوبوں کی نسبت قدرتی جنگلات کا رقبہ اور جنگلات زیادہ ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے ان جنگلات کو بے دردی کے ساتھ کاٹا جارہا ہے۔ صوبائی حکومت نے جنگلات کی کٹائی پر پابندی بھی عائد کی ہوئی ہے لیکن جن علاقوں میں جنگل ہیں وہاں جو لوگ جارہے ہیں ان کا آنکھوں دیکھا حال کچھ اور کہانی سنا رہا ہے۔ آلائی ، کوہستان ، شانگلہ ، بونیر، دیر ، سوات ، بٹاگرام ، تورغر ، چترال ، ہزارہ کے دیگر علاقوں میں جہاں چند برس پہلے تک گھنے جنگل ہوا کرتے تھے وہاں صفائی پھیر دی گئی ہے۔ غیر قانونی طور پر ان جنگلات میں ایسی کٹائی ہورہی ہے کہ اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ چند برس بعد ان علاقوں میں درخت ختم ہوجائیں گے۔ بلین ٹری سونامی اور دس بلین ٹری سونامی میں اگر حقیقی معنوں میں کام ہوتا اور نیک نیتی سے درخت لگائے جاتے اور ان کی حفاظت کی جاتی تو آج صورتحال کچھ اور ہوتی۔ لیکن یہاں تو جو قدرت نے اْگائے ہیں ان درختوں کو کاٹنے سے بچانے کا حکومت بندوبست نہیں کررہی۔ پاکستان میں ٹمبر مافیا ایک ایسا مافیا کے جس کو گزشتہ کسی بھی حکومت نے لگام نہیں ڈالی ، پھر ان جنگلات کے آس پاس رہائشیوں کا واحد ذریعہ معاش یہی جنگل کی کٹائی اور ان کی سمگلنگ رہ گئی ہے۔جنگلات کا محکمہ جس بدترین غفلت اور کوتاہی کا مرتکب ہورہا ہے وہ قابل سزا ہے۔ چند پیسوں کے فائدے کیلئے ان درختوں کا مسلسل کٹتے رہنا اس بات کا اعلان ہے کہ ان علاقوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والی تباہی کو وقت سے پہلے لایا جائے جس سے ان علاقوں سمیت نشیبی علاقوںکا نظام زندگی بھی درہم برہم ہوجائیگا۔ ان علاقوں میں جہاں جنگلات ہیں وہاں کے مواصلاتی نظام پہلے سے خراب ہیں اس پر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سیلابوں اور شدید بارشوں کی بناء پر یہ اور خراب ہوتے چلے جائیں گے۔ جس سے ان علاقوں میں سیاحت ختم ہوجائے گی اور ان علاقوں میں رہنے والوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائیگی۔ ہمارے مقابلے میں انڈیا اور بنگلہ دیش اپنے جنگلات کی حفاظت بھی کررہے ہیں اور ان میں خاطر خواہ اضافہ بھی کررہے ہیں۔
بھارت جس کا دو برس پہلے تک 809537 مربع کلومیٹر رقبہ جنگلات اور پودوں پر مشتمل تھا۔ جو کہ ہندوستان کے کل رقبے کا 25 فیصد بنتا ہے اس میں گزشتہ دو برسوں میں 2261 مربع کلومیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے۔ وہاں گرین انڈیا مشن ، قومی شجر کاری پروگرام اور نیشنل فارسٹریشن پروگرام کام کررہے ہیں۔قدرتی جنگلات کی کٹائی پر وہاں نوے فیصد سے زیادہ قابو پالیا گیا ہے۔ یہاں ہر شخص اور محکمہ جنگلات کی تباہی میں پیش پیش ہے۔ جس کو جہاں اختیار ملتا ہے وہ اس کا استعمال کرکے درخت کاٹتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا قومی مزاج بھی عجیب ہے۔ جن علاقوں میں جنگل ہیں وہاں کے باشندوں کو ہم یہ تعلیم ہی نہ دے سکے کہ یہ جنگل ان کی زندگی اور پورے ملک کے لوگوں کی زندگی کیلئے کتنے اہم ہیں۔ دیر کے ضلع میں تو چارپائی بنانے کیلئے نوخیز پودوں کو مسلسل کاٹا جارہا ہے۔ جن کی عمردو سے چار برس ہوتی ہے۔ ان نوخیز درختوں سے چارپائیوں کے بازو بنائے جاتے ہیں۔ جو درخت چالیس سے پچاس برس میں مکمل درخت کی شکل اختیار کرتے ہیں ان کو دس منٹ میں گرا کر یہ وحشی قوم یا تو جلا دیتی ہے یا بیچ دیتی ہے۔ ہمارے ملک میں صرف 4.8 فیصد رقبے پر جنگلات تھے اور یہ اعداد و شمار آج سے پانچ برس پہلے کے ہیں۔ اگر کوئی حقیقی سروے کیاگیا تو شاید جو یو این کے فوڈ اور ایگریکلچر کے شعبہ کے دعویٰ کے مطابق کہ یہ رقبہ 2.2 فیصد ہے۔ شاید اس سے بھی کم نکلے۔جس تیزی کے ساتھ جنگلات کی کٹائی جاری ہے اس کے حساب سے یہ قیمتی درخت کچھ ہی عرصہ میں ختم ہوں گے۔اس سے ماحول تو تباہ ہوگا ہی ، سیلاب بھی آئیں گے ، گرمی کی حدت میں بھی اضافہ ہوگا لیکن ایک بڑا نقصان اور ہوگا کہ ا ن جنگلوں میں بسنے والے ہزاروں اقسام کے چرند و پرند اور حشرات بھی ختم ہوجائیں گی۔ یعنی ہمارے آنیوالی نسلیں ان جانوروں کی صرف تصویریں دیکھیں گے ان کو زندہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ ہمارے اس شعبہ میں تحقیق اور علم اتنا ناقص ہے کہ بہت سارے علاقوں میں وہ پودے لگائے جاتے ہیں جنہیں دنیا نے اس لئے ترک کردیا ہے کہ ان سے زیر زمین پانی میں شدید کم آتی ہے اور ان سے ماحول پر کوئی بہتر اثر نہیں پڑتا۔
ہمارے ملک میں جنگلات کے خاتمے کیساتھ ساتھ زیر زمین پانی کی سطح کا خطرناک حد تک نیچے جانا بھی ایک مسئلہ ہے جو مستقبل قریب میں شہروں میں رہنے والوں کیلئے کسی عذاب سے کم نہ ہوگا۔ اس لئے کہ شہروں میں آبادی بے تحاشا بڑ ھ رہی ہے اور زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جارہی ہے۔ زیر زمین پانی کے راستے بند ہو رہے ہیں۔ اگر جنگل اس طرح کٹتے رہے تو یہ پانی مزید کم ہوتا جائیگا۔ پاکستان دنیا کے ان 36 ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کا مسئلہ ہے ہمارا نمبر دنیا میںتیسر اہے۔ہم دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اب پانچویں نمبر پر ہیں۔ اس ملک کے اسی شہروں کے ساٹھ فیصد سے زیادہ لوگوں کو پانی کے حصول میں مشکلات ہیں۔ اگر یہ جنگل اس طرح کٹتے رہے تو اس کی وجہ سے آنیوالے سیلابوں اور موسمیاتی تبدیلی سے پانی کی یہ قلت مزید بڑھ جائیگی اور حدت میں اضافہ ہوگا۔ لیکن اس ملک میں تعلیم اور اپنے مسائل پر تحقیق کا عمل تو کب کا رْک چکا ہے۔ یہاں جو نسل پیدا ہورہی ہے اسے کرپشن اور ملک لوٹنے کی تربیت و ترغیب دی جارہی ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کیلئے یہ ملک اور اس کی مشکلات کچھ معنی نہیں رکھتے۔ جنگلات کی کٹائی کون روکے گا۔ حکومت ، لوگ ، پولیس ، فوج ، یا پھر جنگلات کا محکمہ۔ یہ فیصلہ فوراً ہونا چاہیے۔اس لئے کہ ان تمام فریقوں کا یہ ملک ہے اور اس کی تباہی و خوشحالی کی ذمہ داری ان سب پر یکساں لازم ہے۔ یہ کام کسی دوسرے ملک سے آکر کوئی نہیں کرے گا۔ اس لئے کہ اس تباہی میں ان سب کا کردار ہے۔ اب اس کو درست کرنے کیلئے بھی ان سب کو یکجا ہونا پڑیگا۔کاش درخت بچانے کیلئے بھی کوئی عوامی ٹاسک فورس بنائے۔کاش لوگوں کو عقل آجائے۔

مزید پڑھیں:  ڈیجیٹل ہنرمندی کے شعبے پر توجہ