کوہ پیما مراد سدپارہ جاں بحق

سر پر پتھر لگنے سے زخمی پاکستانی کوہ پیما مراد سدپارہ جاں بحق

ویب ڈیسک: سر پر پتھر لگنے سے زخمی پاکستانی کوہ پیما مراد سدپارہ جاں بحق، براڈ پیک ریسکیو ٹیم نے مراد سدپارہ کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کردی۔
تفصیلات کے مطابق براڈ پیک کی مہم جوئی کے دوران کے ٹو پر سر پر پتھر لگنے سے پاکستانی کوہ پیما مراد سدپارہ زخمی ہو گئے تھے، اس کے بعد ان کے جاں بحق ہونے کی تصدیق الپائن کلب کے نائب صدر ایاز شگری نے کردی۔
یاد رہے کہ رواں سال مراد سدپارہ نے کے ٹو کلین اپ سمیت کے ٹو ریسکیو مشن میں بھی لیا۔ کے ٹو سمیت کئی چوٹیوں پر سبزہلالی پرچم لہرانے کا ریکارڈ ان کے نام ہے۔
ذرائع کے مطابق براڈ پیک پر مہم جوئی کے دوران ان کے سر پر پتھر لگنے سے گہری چوٹ آئی، جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے تھے اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
الپائن کلب کے نائب صدر ایاز شگری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انہیں 5700 میٹر کی بلندی پر حادثہ پیش آیا، اس دوران پاک فوج نے 4 مقامی کوہ پیماوں کو ریسکیو کے لیے بیس کیمپ پہنچا دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق ریسکیو مشن میں 4 مقامی کوہ پیماوں نے حصہ لیا، آنجہانی مراد سدپارہ نے رواں سال کے ٹو میں 8200 میٹر کی بلندی سے لاش کو ریسکیو کر کے ریکارڈ قائم کیا تھا، اس کے علاوہ بھی وہ کئی منفرد ریکارڈر اپنے نام کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ سکردو میں مراد سدپارہ 8 ہزار 47 میٹر بلند چوٹی براڈ پیک کی مہم جوئی کے دوران زخمی ہوئے تھے، اس کے بعد پاک فوج نے سکردو سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما مراد سدپارہ کو بچانے کے لیے آپریشن شروع کیا تھا۔
پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی کی جانب سے مراد سدپارہ کو بچانے کے لیے فوج کی مدد طلب کی گئی تھی، اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ براڈ چوٹی کے دوران ایک پرتگالی خاتون کوہ پیما کے لیے گائیڈ کے طور پر کام کررہے تھے اور اس دوران تقریباً 5,000 میٹر کی بلندی پر پھسل گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیم سمٹ سے واپس آ رہی تھی کہ اس دوران مراد سدپارہ خراب موسم کے دوران کیمپ ایک کے قریب گر گئے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی ایوی ایشن کے ایک ہیلی کاپٹر نے مراد سدپارہ کو بچانے کے لیے دو تجربہ کار کوہ پیماؤں کو براڈ پیک بیس کیمپ پر اتارا تھا۔
بعدازاں الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری نے امید ظاہر کی تھی کہ دونوں ریسکیورز صبح بیمار کوہ پیما سے رابطہ کریں گے۔

مزید پڑھیں:  بلوچستان میں سالوں بند پڑے 3700 سکول کھولنے کا فیصلہ