دیر آید درست آید

پشاور میں غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کے خلاف بڑی کارروائی کے دوران چمکنی میں21غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کے خلاف آپریشن شروع کرتے ہوئے شہریوں کو کسی بھی قسم کی لین دین کرنے سے روک دیا گیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے عوامی ایجنڈا کے تحت تحصیل چمکنی میں غیر قانونی ہائوسنگ سوسائیٹز کے خلاف میگا آپریشن شروع کردیا ہے کارروائی کے دوران بھاری مشینری کی مدد سے غیر قانونی ہائوسنگ سوسائیٹز کے بورڈز اور سڑکیں اکھاڑ دی گئیں جبکہ ان کی وال چاکنگ پر بھی غیرقانونی کا لفظ لکھ دیا گیا۔ حکمرانوں کے اکثر اقدامات پر نکتہ چینی تو معمول ہے کبھی کبھار جب ایسے اقدامات جس کی بہت شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہو اور باوجود اس کے حکام اس پرسنجیدہ اقدامات سے گریزاںہوں ایسے میں اگر کوئی ایسا قدم حکومتی مشینری کی جانب سے سامنے آئے جو راست اور سنجیدہ ہو تو پھر اس کی دل کھول کر تحسین نہ کرنا بددیانتی ہو گی ہم نے انہی صفحات غیر قانونی ہائوسنگ سکیمز اور قیمتی زرعی اراضی پر حکومتی پابندی کے باوجود بلڈرز کی جانب سے کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے کرنے پر چشم پوشی ، ملی بھگت اور مبینہ بدعنوانی پر بارہا تنقید کی ہے لیکن یہ شایدیہ پہلی مرتبہ ہے کہ صوبے کے تمام اضلاع میں غیر قانونی ہائوسنگ سکیمز کالونیز ، ٹائونز اور مختلف ناموں سے غیر منظور شدہ اور معیار و منظور شدہ نقشہ اور رہائشی سہولیات کی منصوبہ بندی کے بغیر منصوبوں کے باقاعدہ نام شامل کرکے میڈیا میں مشتہر کرنے کا اقدام اٹھایاگیا محکمہ بلدیات کی جانب سے پولیس کو اس طرح کی غیر قانونی سکیموں کے خلاف مقدمات کے اندراج سے لیت و لعل اور انکار کے حوالے سے بھی صورتحال سامنے آئی تھی علاوہ ازیں بھی پوشیدہ و علانیہ دبائو اور حربوں کا سامنا ہونا بعید نہیں لیکن اس کے باوجود یہ عذر قابل قبول نہ تھا کیونکہ متعلقہ بلدیاتی حدود کے حکام کی جانب سے اس سلسلے میں پولیس کو درخواست دینے پر اکتفا اور عدم کارروائی پر کوئی اور ممکنہ قانونی اقدام نہ ا ٹھانے کا جواز نہ تھا بہرحال جملہ اعتراضات اور تنقید سے قطع نظر پشاور کی تحصیل چمکنی میں غیر قانونی ہائوسنگ سکیمز کے خلاف میگا آپریشن بارش کا پہلا قطرہ ہے جس سے پوری طرح امید وابستہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سنجیدہ اور پرعزم ہیں وزیر بلدیات سے بھی اسی کی توقع ہے جب تک اس سطح کے عہدیداروں کی جانب سے براہ راست دلچسپی اور سرپرستی نہ ہویہ دھندہ چل نہیں سکتا اور نہ ہی دھندہ کرنے والوںکایہ اصول ہے بلکہ ان کا اصول مل کر کھانا اور خوب کھلانا ہے بلڈرز مافیا کے خلاف کسی اقدام کے موثر ہونے کا سوال ابتداء ہی میں اٹھنا فطری امر ہے ہم سمجھتے ہیں کہ صوبے میں اس طرح کے عناصر کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کو سرکاری ہائوسنگ سکیم پشاور ویلی پر کام کی رفتار مزید تیز کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ کافی عرصے سے صوبائی حکومتی محکمے اور ادارے کے زیر انتظام کسی بڑی رہائشی سکیم کا کوئی منصوبہ شروع ہی نہیں کیا گیا جس کے باعث عوام اور سرمایہ کاروں کے پاس چنائو کے لئے کوئی ا مکان ہی نہیں بچا ریگی ماڈل ٹائون جیسی بڑی رہائشی سرکاری سکیم کی کامیابی و عدم تکمیل کا سوال اپنی جگہ حقیقت ہے جس کی اصلاح کئے بغیر نیو پشاور ویلی کا منصوبہ شروع کرنے پر تحفظات کی گنجائش تو موجود ہے لیکن حسن ظن رکھتے ہوئے ہم اس امید کا اظہار مناسب سمجھتے ہیں کہ حکومتی ادارے نیو پشاور ویلی کے منصوبے میں محولہ قسم کی غلطی ہر گز نہیں دہرائیں گے او رعوام کو جدید و پرسہولت سرکاری رہائشی سکیم کی فراہمی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے علاقے میں کھمبیوں کی طرح اگ آنے والی غیر قانونی ہائوسنگ سکیمز اس بڑے منصوبے کی راہ میں ایک طرح سے رکاوٹ ہی کی مثال ہیں جن کا اس بڑی سکیم کے آغاز سے قبل صفایا کرنا ناگزیر ہے حکومت کو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے اس امر کو یقینی بنانا چاہئے کہ جہاں بھی بڑی سرکاری رہائشی سکیم بنے اس کے ارد گرد دس پندرہ کلو میٹر کے علاقے میں پھر کسی او رچھوٹی سکیم کی اجازت نہ دی جائے تاکہ اس کے منفی اثرات سے وہاں سرمایہ کاری کرنے اور گھر بنانے والوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سرکاری سکیم کو مختلف قسم کے تجاوزات او رناخوشگوار ماحول کا سامنا نہہو اور نہ ہی پلاٹ لینے کے خواہش مند افراد اور سرمایہ کاری کرنے والوں کا اعتماد مجروح ہو۔ توقع کی جانی چاہئے کہ صوبہ بھر میں محولہ طرز کے آپریشنز کئے جائیں گے اور زرعی اراضی کے تحفظ کو بطور خاص یقینی بنانیا جائے گا نیز ماحولیاتی مسائل کے بھی تدارک کا پورا پورا انتظام ہو گا۔

مزید پڑھیں:  صرف مسلم کا محمدۖ پہ اجارہ تو نہیں