گورنر بمقابلہ وزیر اعلیٰ

گورنرخیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کی جانب سے یہ کہہ کرکہ علی امین گنڈا پور اکثریت کھو چکے ہیں وہ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں دیکھا جائے تو یہ ایک سیاسی بیان ہی ہے ہمارے تئیں صوبے کے آئینی عہدیدارہونے کے ناتے ان کا اس طرح کا بیان دینا مناسب نہیں البتہ اگر وہ واقعی ایسا ہی سمجھتے ہیں تو پھر سرکاری اور تحریری طور پرازروئے دستور مروجہ طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہئے تھا ۔ گورنر کا کہنا ہے کہ دو تہائی اکثریت والے وزیراعلیٰ اپنی اسمبلی میں جانے سے کترا رہے ہیں، چار مرتبہ اجلاس ملتوی ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا وزیراعلیٰ کے پاس اکثریت نہیں، ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آسکتی ہے، میں سرکاری طور پر بھی وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا بھی کہہ سکتا ہوں۔ بتایا جائے وزیر اور مشیر کیوں بدلے جا رہے ہیں، اگر وہ کرپٹ ہیں، نااہل ہیں تو انہیں سزا کیوں نہیں دی جا رہی۔امر واقع یہ ہے کہ صوبے میں تحریک انصاف کی تیسری حکومت پہلے سے زیادہ مضبوط ، متحد اور وزیر اعلیٰ طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ دبنگ شخصیت بھی ہیںاور وہ ناموافق حالات کا بھی دلیری کے ساتھ ساتھ حکمت اور بصیرت کے ساتھ کامیابی سے سامنا بھی کر رہے ہیں بہرحال گورنر کے لفظی حملے اور تنقید پہلی مرتبہ کا نہیں بلکہ گورنر ہائوس نے اس نامناسب عمل کومعمول بنا لیا ہے گورنر سمری پر دستخط کرنے کے پابند ہیں البتہ ان کی یہ بات بہرحال اصولی طور پر درست ہے کہ وزیر ، مشیر بدلنا وزیر اعلیٰ کی صوابدید تو ہے لیکن عوام جاننا چاہتے ہیں کہ جن تحفظات اور وجوہات کی بناء پر یہ اقدام اٹھایا گیا اگر وہ الزامات درست تھے تو صرف عہدے سے ہٹانا کافی نہیں ہر طرف صوبائی وزیر کی جانب سے اسمبلی میں سب سے سامنے کچا چھٹا کھولنے ببانگ دہل اعلان کے بعد ہی اسمبلی کا اجلاس بار بار ملتوی کیا جارہا ہے جس سے شکوک و شبہات جنم لینا فطری امر ہے نیز اس سے شکوک وشبہات کو بھی تقویت مل رہی ہے صوبے کے مفاد کے تقاضا ہے کہ آئینی عہدوں پر بیٹھ کر سیاست نہ کی جائے کیونکہ سیاسی کھلواڑ مسائل سے توجہ ہٹانے کا باعث بھی ثابت ہو رہا ہے سیاست سے بالاتر ہو کر صوبے کے حقوق کے حصول او رعوام کو مشکلات سے نکالنا بہتر سیاست بھی ہو گی اور آئینی عہدے کی لاج بھی رہے گی لیکن وزیر اعلیٰ بطور منتخب عہدیدار عوام کو جوابدہ ہیں اور ان سے جو بھی سوال ہو اس کا مدلل اور با ثبوت جواب دینا ہو گا احتراز کی گنجائش نہیںدیکھا جائے تو وزیر اعلیٰ عوامی مسائل و مشکلات پر جماعتی سیاست اور احتجاج کی تیاریوں کو اولیت ہی نہیں دے رہے ہیں وزیر اعلیٰ کو اڈیالہ اور اسلام آبادپر یلغار کی تیاریوں سے ہی فرصت نہیں اس سے باہر نکلیں گے تبھی ان کی توجہ عوامی مسائل کے حل کی طرف مبذول ہو گی بنا بریں جتنا جلد وزیر اعلیٰ سیاسی سرگرمیوں کی بجائے عوامی سرگرمیوں اور حکومتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہوں اور عوامی مسائل و مشکلات دور کرنے کی سعی پر توجہ مرکوز کریں تو یہ خود ان کے عوام اور صوبے کے حق میں اچھا ہو گا۔

مزید پڑھیں:  بیربل اور آئی ایم ایف کے مطالبات