راہ حق کے شہیدوں اور غازیوں کو سلام

6 ستمبر پاک و ہند کی پچپن سالہ پرانی تاریخ کا ایک ایسا معرکہ ہے۔ جسے امت مسلمہ کی مائیں آج بھی گود میں بچوں کو لوری کے طور پر سناتی ھیں جسے جوان آج بھی گنگناتے ہیں،چھ ستمبر برصغیر کی تاریخ کا وہ میلہ ہے ، قوموں کا وہ کٹھ ہے چھ ستمبر ہندوستان کے افق پر حق وباطل کی اک ایسی لڑائی ہے جسے مسلم امہ صدیوں یاد رکھے گی، چھ ستمبر دل کی چوکھٹ پہ پہلا وار ہے یہ ہندوستان کے ماتھے پہ پہلی ضرب ہے جس کے زخم کے رستے ہوئے لہو سے گنگا جمنا آج بھی سرخ ہے ،یہ وہ درد ھے جسکی کراہیں ہفت اقلیم تک کو کراس کر گئیں انڈیا کی تاریخ کا یہ وہ دکھ ہے جو صدیوں کی مسافت کے بعد بھی مندمل نہ ہوا،چھ ستمبر مسلم امہ کی فتح کا جنم دن ہے جب رات کے گھپ اَندھیرے میں طاقت کے نشے میں چور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر دشمن ناپاک عزائم کے ساتھ سر زمین مقدس پہ مسلم قوم کے شیر دل جوانوں کے ساتھ نبردآزما ہوا۔چھ ستمبر کا دن ہے۔ جب بھارت نے مسلم فوج کو للکارا۔کون جانتا تھا کہ صبح کا سورج اس ملک کے لیے آزمائش کا سبب بنے گا ماؤں کے لال ان سے جدا ہو جائے گئے۔ بچوں کے سروں سے سائبان آٹھ جائیں گئے۔عورتوں کے سہاگ اجڑ جائیں گے۔ لیکن مسلم امہ نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک کر دیا۔اور آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ کا سبب بنے ۔ 6ستمبر 1965ء کا دن عسکری اعتبار سے تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والا قابلِ فخردن ہے جب کئی گنا بڑے ملک نے افرادی تعداد میں کئی گنا زیادہ لشکر اور دفاعی وسائل کے ساتھ اپنے چھوٹے سے پڑوسی ملک پر کسی اعلان کے بغیر رات کے اندھیرے میں فوجی حملہ کردیا۔ اس چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے اپنے دشمن کے جنگی حملہ کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے سارے عزائم خاک میں مل گئے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اسے شرمندگی اٹھانا پڑی۔ جارحیت کرنے والا وہ بڑا ملک ہندوستان اور غیور و متحد ملک پاکستان ہے۔1965ء کی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں ثابت ہوا کہ جنگیں ریاستی عوام اور فوج متحد ہو کر ہی لڑتی اور جیت سکتی ہیں۔ پاکستانی قوم نے اپنے ملک سے محبت اور مسلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارت اورجانثاری کے جرأت مندانہ جذبے نے ملکر نا ممکن کو ممکن بنا کر دکھایااورپاکستان پر1965ء میں ہندوستان کی طرف سے جنگ کا تھوپا جانا پاکستانی قوم کے ریاستی نصب العین دوقومی نظریہ،قومی اتحاد اور حب الوطنی کو بہت بڑا چیلنج تھا۔ جسے جری قوم نے کمال و قار اور بے مثال جذبہ حریت سے قبول کیا اور لازوال قربانیوں کی مثال پیش کر کے زندہ قوم ہونے کاثبوت دیا۔ دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ اُسے دشمن کا سامنا کرنا اور کامیابی پانا ہے۔جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکریت طاقت پر تھی اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکست دینے کے سوا کوئی اورمقصد تھا۔ تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے، اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار ، مزدور ، کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ”اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا”ستمبر 1965ء کی جنگ کا ہمہ پہلو جائز لینے سے ایک حقیقی اور گہری خوشی محسوس ہوتی ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط ہندوستان کے مقابلے میں چھوٹے سے پاکستان میں وہ کون سا عنصر اورجذبہ تھا، جس نے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی نا قابل عبور دیوار میں بدل دیا تھا مثلاً ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحد”رن آف کچھ” پر طے شدہ قضیہ کو ہندوستان نے بلا جواز زندہ کیا فوجی تصادم کے نتیجہ میں ہزیمت اٹھائی تو یہ اعلان کردیا کہ آئندہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ جنگ کے لئے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا اس کے باوجود پاکستان نے ہندوستان سے ملحقہ سرحدوں پر کوئی جارحانہ اقدام نہ کئے تھے۔ صرف اپنی مسلح افواج کومعمول سے زیادہ الرٹ کررکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چھ ستمبر کی صبح جب ہندوستان نے حملہ کیا تو آناً فاناً ساری قوم، فوجی جوان اور افسر سارے سرکاری ملازمین جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف گئے۔صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ایمان فروز اور جذبہ جہاد سے لبریزقوم سے خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھا۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس جملے”پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اوردشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا”ان کے اس خطاب نے قوم کے اندر گویا بجلیاں بھردی تھیں۔ پاکستان آرمی نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اورپیشہ وارانہ مہارتوں سے روکا ہی نہیں، انہیں پسپا ہونے پر بھی مجبور کردیا تھا۔ ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں شام کو شراب کی محفل سجائیں گے۔ ہماری مسلح افواج نے جواب میں کمانڈر انچیف کے منہ پر وہ طمانچے جڑے کہ وہ مرتے دم تک منہ چھپاتا پھرا۔ لاہور کے سیکٹر کو میجر عزیز بھٹی جیسے سپوتوں نے سنبھالا، جان دے دی مگر وطن کی زمین پر دشمن کا ناپاک قدم قبول نہ کیا۔چونڈہ کے سیکٹر پر(ہندوستان کا پسندیدہ اور اہم محاذ تھا)کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ وبارود سے نہیں اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ہندوستانی فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنادیا۔ ہندوستان کی اس سطح پر نقصان اور تباہی کو دیکھ کر بیرون ممالک سے آئے ہوئے صحافی بھی حیران اور پریشان ہوئے۔7ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔ پاکستان نیوی کا بحری بیڑا، جس میں پاکستان کی واحد آبدوزپی این ایس غازی بھی شامل تھی۔ ہندوستان کے ساحلی مستقر”دوارکا”پرحملہ کے لئے روانہ ہوئی اس قلعہ پر نصب ریڈار ہما ر ے پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک رکاوٹ تھی۔ مذکورہ فلیٹ صرف 20منٹ تک اس دوار کا پر حملہ آور رہا۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوار کا تباہ ہو چکا تھا۔ پی این ایس غازی کا خوف ہندوستان کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ ہندوستانی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرأت نہ کرسکا۔پاک فضائیہ:۔ائیر مارشل اصغر خان اور ائیر مارشل نور خان جیسے قابل فخرسپوتوں اور کمانڈروں کی جنگی حکمت عملی اور فوجی ضرورتوں کے پیش نظر تجویز کردہ نصاب کے مطابق پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف”ہوا باز گھوڑوں کو تیار کر رکھا تھا”جیسا کہ مسلمانوں کو اپنے دشمن کے خلاف تیاررہنے کا حکم ہے۔ یہ ہمارے ہوا باز7ستمبر کو اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لئے دشمن پر جھپٹ پڑے۔ ایک طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کومار گرایا۔ تو دوسری طرف سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علاؤالد ین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کردیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔

مزید پڑھیں:  بیربل اور آئی ایم ایف کے مطالبات