احتساب و بعداز احتساب

عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ پاک فوج خود احتسابی کے عمل پر یقین رکھتی ہے، پاک فوج کا احتسابی نظام جامع ہے، خود احتسابی کا عمل ٹھوس شواہد پر کام کرتا ہے، خود احتسابی کا نظام تیزی سے حرکت میں آتا ہے، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں درخواست آئی، اپریل 2024ء میں ایک اعلیٰ سطح کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا گیا، ہمارے احتساب کا عمل شفاف ہے وہ الزامات پر نہیں ثبوتوں اور شواہد پر کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص اگر کسی فرد یا افراد کو جو آرمی ایکٹ کے تابع ہوں ان کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرے تو قانون اپنا راستہ خود بنالے گا، فیض حمید کیس میں جو بھی شخص ملوث ہوگا کوئی بھی عہدہ اور حیثیت ہو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھاکہ انصاف کے تقاضے مقدم ہیں، جس کا کورٹ مارشل ہوتا ہے، اس کو ثبوت پیش کرنے اور اپیل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، ریٹائرڈ افسر پر الزام ہے کہ انہوں نے مخصوص سیاسی عناصر کے ایماء پر حدود و قیود سے تجاوز کیا۔جملہ صورتحال کے تناظر میں اس امر کا امکان بڑھ گیا ہے کہ احتساب کا جاری عمل داخلی حدود سے نکل کر سیاسی حدود میں بھی داخل ہوگا ایسا ہونے کی صورت میں جو طوفان کھڑا ہوگا وہ یقینامدنظر ہوگا بہرحال معاملات کیسے آگے بڑھتے ہیں یہ اندازوںاور بعد کی بات ہے البتہ اس امر پر غور رو حوض ہونا چاہئے کہ جب اس طرح کے معاملات ہونے لگیں تو آئندہ ان کی روک تھام کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے اور بعد کی بجائے بر موقع احتساب اور روک تھام کے لئے نظم و ضبط پر عملدرآمد کیسے یقینی بنایا جائے ۔ جو معاملہ اس وقت مراحل طے کرنے کے دور میں ہے اگراس کا انتظار کئے بغیر روک تھام اور اصلاح احوال کے اقدامات اختیار کئے جائیں تو آج صورتحال کافی مختلف ہوتی مشکل امر یہ ہے کہ اول بویا گیا اور آبیاری کی گئی اب صفائی کی ذمہ داری بھی اپنے ہی کندھوں پر ہے جسے پورا کرنے کے بعد آئندہ اجتناب اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کا امکان ہی معدوم ہو۔

مزید پڑھیں:  پشاور کا بے ہنگم ٹریفک