ہم نفاست پسند کیوں نہیں ہیں

انسان سفر کرکے بہت کچھ دیکھتا ہے اور سیکھتا ہے ۔پاکستان سے باہر جنہوں نے سفر کیا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم میں اور ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ اقوام میں بنیادی فرق نفاست کا ہے ۔ اس لیے کہ جب ہم باہر جاتے ہیں تو ساری چیزیں مرتب اور صاف ہوتی ہیں ۔ گھروں سے لیکر دکانوں ریلوے سٹیشن سے لیکر پارکوں تک میں صفائی اور نفاست کو وہاں برقرار رکھا گیا ہے ۔ کوئی بھی بندہ ڈس بین کے علاوہ گند کہیں نہیں پھینکتا ۔جبکہ پاکستان بھر میں آپ کہیں پر بھی جائیں آپ کو نفاست نہیں ملے گی ۔ نہ لوگوں کی گفتگو میں نہ ان کے رہن سہن میں اور نہ ہی ان کی سوچ و فکر میں اس پر سوچا جائے کہ آخر انتہا بڑا تضاد کیوں ہے ۔جب میں نے اس پرجو تحقیق ہوئی ہے وہ پڑھنا شروع کی تو میں حیران رہ گیا کہ یہ جس کو کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھ رہایہ نہ صرف ایک سنگین مسئلہ ہے بلکہ یہ مسئلہ ہمیں بتاتا ہے کہ ترقی اور تہذیب کے سارے در ہم نے بند رکھے ہوئے ہیں اور جو چند ایک ہیں ان کو بھی بند کررہے ہیں ۔ نفاست ایک نسل کی میراث نہیں ہوتی یہ تہذیبی لاشعور میں نسلوںکو منتقل ہوتی ہے ۔دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے تہذیبی لاشعور میں نفاست کو قوت بخشنے والے عناصر موجود ہی نہیں ہیں ۔جن اقوام میں ہمیں صفائی نفاست نظرآتی ہے ان کو یہ سب ورثہ میں ملا ہے اور وہ اس کو مزید بہتر کررہے ہیں۔اب یہ ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے ۔ہمارا تہذیبی اور اجتماعی لاشعور ایسا ہے کہ اس میں یہ ساری چیزیں موجود نہیں ہیں ۔ اور ہمارا خاندانی نظام، معاشرتی نظام اور تعلیم کا نظام ایسا ہے جہاں اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا گیا ہے اور رفتہ رفتہ گندپھیلانا، صفائی و نفاست کا خیال نہ رکھنا ہمارے معمول کا حصہ بن گیا ہے ۔ ہم گھر میں بچوں کو اس سلسلے میں نہ تو عملی تربیت دیتے ہیں اور نہ خود ان کے لیے نمونہ بنتے ہیں ۔ سرکاری دفاتر جہاں ڈسپلن ہونا چاہئے وہاں بھی صورت حال بہت زیادہ خراب ہے ۔ کیا یہ صورتحال ایسی ہی رہے گی یا ہمیں بھی دنیا کے اقوام کی طرح تہذیبی خوبصورتی اور نفاست کی طرف سفر کرنا چاہئیے یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر اب مکالمہ شروع ہونا چاہئیے ۔ صدر پاکستان سے لیکر ہر مسجد کے خطیب اور پرائمری سکو ل کے استاد تک کو اس سلسلے میں اپنے عوام اور خواص سے بات کرنی چاہئیے ۔مہذب معاشروں میں جو سکون نظر آتا ہے اس کے پیچھے تربیت ہوتی ہے ۔ ڈچ ، جاپانی ، کورین اور دیگر اقوام اب اس قدر نفاست پسند ہوگئی ہیں کہ لگتا ہے وہ دنیا کی جنت میں رہ رہے ہیں ۔ ہالینڈ میں کسی بھی گھر جاکر دیکھیں آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے آپ کسی تصوراتی گھر میں آگئے ہوں ۔ اس قوم نے پھولوں سے محبت شروع کی او ر پھر اس کو کاروبار بنا لیا ہمارے صوبہ کے بجٹ سے دس گنا زیادہ وہ صرف پھولو ں کی تجارت سے کماتے ہیں ۔ آپ ڈھونڈیں آپ کو پشاور شہر جس کی آبادی اب پچاس لاکھ سے زیادہ ہے کتنے پھولوں کی دکانیں ملتی ہیں ، اس پورے صوبے میں کتنے لوگ ہیں جو پھول اُگا کر اس کا کاروبار کرتے ہیں ۔ صرف
ایمسٹرڈیم شہر میں پھولوں کی سات ہزار دکانیں ہیں اور اس کی آبادی پشاور سے کم ہے ۔ یہی حال سنگاپور، پیرس ، لندن ، روم ، نیویارک اور استنبول کا بھی ہے ۔ ان ملکوں نے اپنے رہن سہن کو ایک جمالیاتی ترتیب میں رکھا ہے ۔ان لوگوں نے لباس و پوشاک کی خوبصورتی پر کام کیا ہے ، ان کی سڑکیں صاف ہیں ۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں آپ گند سڑک پر یا کسی بھی جگہ نہیں پھینک سکتے ۔ مگر اپنے ملک کا حال دیکھ لیں ہر شخص اپنے گھر کا گند نکال کر گلی میں پھینک دیتا ہے ۔ راہ چلتے جو کچھ کھاتا ہے اس کا بچا ہوا حصہ اورپلاسٹک اوردیگر اشیاء وہیں سڑک ، فٹ پاتھ پر پھینک دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ گاڑیوں سے چیزیں باہرسڑک پر پھینک دیتے ہیں اب یہ برائی اس حد تک ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے کہ ہم اس کو بُرا بھی نہیں سمجھتے۔ ہم ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور زبردستی اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور سڑک کے بیچوں بیچ گاڑی کھڑی کردیتے ہیں ۔ جس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ ہم اس سلسلے میں بچوں کو بتا اور سکھا نہیں رہے اور جو اس کام کو ترتیب میں رکھنے پر مامور ہیں وہ صرف سزا دینے کو ہی کافی سمجھتے ہیں ۔تربیت کا پہلو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے کہ تربیت سے اس خرابی کو یکسر ختم کیا جاسکتا ہے جیسے دیگر اقوام نے کیا ہے ۔ سکولوں ، مدرسوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زندگی اور معمولات زندگی کے اصول اور قواعد ، صفائی نفاست اور جمالیات کا درس کہیں نہیں ملتا بس بچوں کو رٹا سکھایا جاتا ہے ۔ ہمارا لڑیچر اٹھا کر دیکھیں ہمارے ٹی وی ڈرامے اٹھا کر دیکھیں ان میں کہیں بھی اس معاشرے کو بہتر کرنا کا سبق نہیں ملتا بلکہ ان سے معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔آپ ہمارے بچے اور بچیاں جو سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہیں ان کی کبھی گفتگو سنیں ، زندگی کے مختلف معاملات میں ان کااپرووچ دیکھیں وہ بات کرنے کا سلیقہ نہیں رکھتے ۔ہر بچہ اور بچی لڑنے کے لیے بات کرنے سے پہلے تیار رہتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں آپ دنیا کے بچوں کو دیکھیں ان کو سکھایا جاتا ہے کہ اپنا مدعا کیسے بیان کرنا ہے اور دوسروں کو احترام دینا ہے ۔ دلیل سے بات کرنے سے وہاں کے بچوں کو جھگڑوں کی عادت نہیں پڑی ۔ ہمارے ہاں ہمارے بچے ایک غلط کام کرکے آتے ہیں اور ان کے والدین اور رشتہ اپنے بچوںکو سمجھانے کی جگہ ان کے ساتھ لڑنے کے لیے جاتے ہیں جس سے دشمنی کا آغاز ہوتا ہے پھر اس میں نسلوں کی نسلیں قتل ہوتی رہتی ہیں گھر کے گھر تباہ ہوجاتے ہیں ۔ لیکن ان کو کسی نے نہیں بتایا کہ یہ چھوٹا سا معاملہ مل بیٹھ کر حل کیا جاسکتا تھا ۔ اپنے بچوں کو تمیز سکھائی جاسکتی تھی ۔ انہیں ایک دوسرے کا احترام کرنا سکھایا جاسکتا تھا۔ معاشرہ وقت کے ساتھ ساتھ یا بہتر ہوتا جاتا ہے یا پھر خراب ہوتا جاتا ہے یہ ساکت نہیں رہتا ۔ اس لیے اپنے بچوں اور گھروں کی اصلاح شروع کردیں تاکہ وہ انسانوں کی صف میں شامل ہوجائیں اور کل معاشرے میں مزید بگاڑ کا باعث نہ بنیں ۔ اور کوشش کریں کہ خود بھی نفاست پسندی کی طرف جائیں اور اپنے بچوں کو اس کا پابند بنائیں ۔ تبدیلی کا آغاز یہاں سے ہوگا اور ایک دن آئے گا جب دنیا ہمیں بھی مہذب لوگوں میں شمار کرے گی ۔ ورنہ ہمارا مستقبل اس حوالے سے بہت ہی تاریک نظر آرہا ہے ۔

مزید پڑھیں:  پاکستانی معیشت ۔ سٹیٹ بینک کے مثبت اشارئیے