بجلی کی بچت۔۔یا گھاٹے کا سودا؟

ملک میں بجلی کی کمی اور بلوں میں بتدریج اضافے سے غریب عوام پر پڑنے والے بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک عرصے سے انرجی سیور اور اب ایل ای ڈی سسٹم پر چلنے والے الیکٹرانک ا شیاء پر منتقل ہونے کے جو تجربات کئے جارہے تھے ، ان سے اگرچہ بجلی کی کھپت میں معمولی کمی ضرور آئی ہے مگر پھر بھی نہ بجلی استعمال میں قابل ذکر کمی ہو رہی ہے نہ ہی بھاری بھر کم بل کم ہو رہے ہیں ایسے میں اب لوگ سولر سسٹم میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں مگر وہ بھی رات کو ناکارہ ہو جاتا ہے اس سلسلے میں اب وفاقی حکومت نے بجلی کی بچت کے لئے ملک گیر میگا منصوبہ شروع کرکے آٹھ کروڑ پنکھے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں آٹھ کروڑ پنکھے انورٹر سسٹم پر منتقل کرکے بجلی کے استعمال میں کمی لائی جائے گی جبکہ عوام کو بجلی کے بلوں میں کمی کا بھی فائدہ ملے گا۔ خبروں کے مطابق صارفین کو پندرہ ہزار روپے میں پنکھا قسطوں پر دے گی اور بارہ قسطوں یعنی ایک سال میں قرضے کی رقم وصول کرے گی نظر بظاہر تو اسے ایک اچھا فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے تاہم منصوبہ سازوں کے پاس اس بات کاکیاجواز ہے کہ کھلی مارکیٹ میں یہ ڈی سی (ڈائریکٹ کرنٹ) والے پنکھے ساڑھے آٹھ ہزار روپے سے بارہ ہزار تک (کوالٹی کے لحاظ سے) مل جاتے ہیں تو صرف قسطوں پر پندرہ ہزار روپے میں پنکھے خریدنے کا خطرہ کون مول لے اس لئے کہ چھوٹے سے چھوٹے گھر میں بھی کم از کم دو اور تین پنکھے تو ضرور استعمال ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ اگر سرکاری طور پر آٹھ کروڑ پنکھے خریدے جائیں گے تو ان کی قیمت تو کھلی مارکیٹ کے مقابلے میں مزید کم ہونی چاہئے اور دوسری بات یہ ہے کہ مارکیٹ میںتو کمپنیاں وارنٹی کے ساتھ کاپر کے پنکھے فراہم کرتی ہیں جبکہ اتنی بڑی تعداد میں اس کے اندر کاپر کی وارنٹی کون دے گا اور کون لے گا؟ اور کیا کاپر کی جگہ ان کے اندر سلور کے کم معیار کا استعمال روکا جا سکے گا؟ یہ سراسر عوامی نقطہ نظر سے ”گھاٹے”کا سودا ہے جس میں نہ معیار کی گارنٹی ہو گی نہ قیمت عام مارکیٹ کے مطابق بلکہ زیادہ اور مہنگے غیر معیاری پنکھے عوام کو دے کر مبینہ طور پر ”ملی بھگت” کا اہتمام کئے جانے کا احتمال ہے۔

مزید پڑھیں:  شدت پسندی کا رخ پشاور کی جانب؟