4 95

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

پہلے صبح سویرے اخبار سے ملاقات ہوتی تھی جس میں اچھی بری دونوں قسم کی خبریں دیکھنے کو ملا کرتی تھیں، ایک خبر پڑھ کر بلڈ پریشر بڑھ جاتا تو دوسری خبر کے پڑھتے ہی ہونٹوں پر مسکراہٹ کھلنے لگتی لیکن اب شومئی قسمت سے کرونا کے سوا کوئی خبر پڑھنے کو نہیں ملتی اور خبریں بھی ایسی خوفناک کہ دل دہل جاتا ہے۔ جہاں ایسی صورتحال ہو تو آدمی کیلئے پرسکون رہنا ناممکن ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ دو خبریں ملاحظہ فرمائیے تو شاید ہماری بات کسی حد تک واضح ہوجائے گی: ”لاک ڈاؤن تقریباً ختم جمعہ کو دکانیں کھولنے کی اجازت، سیاحت پر پابندی ختم، بیشتر شعبے کھولنے کا فیصلہ! وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سیاحت کے چند مہینے ہیں جن میں کاروبار ہوتا ہے اگر یہ لاک ڈاؤن میں چلے گئے تو غربت بڑھے گی، کورونا کہیں نہیں جارہا، وائرس کیساتھ گزارا کرنا ہے تو عوام احتیاط کریں ورنہ اپنا نقصان ہوگا۔ دوسری خبر پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے، ”لاہور میں کورونا کے چھ لاکھ ستر ہزار مریضوں کا اندیشہ، پورا شہر غیرمحفوظ! وائرس لاہور میں خطرناک حد تک پھیل گیا کوئی بھی رہائشی علاقہ اور قصبہ وبا سے محفوظ نہیں، محکمہ صحت کے ٹیکنیکل ورکنگ گروپ نے چار ہفتوں کیلئے مکمل لاک ڈاؤن کی سفارش کردی۔ پچاس سال سے اوپر کے لوگوں کو قرنطینہ میں رکھنے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وائرس کیساتھ گزارا کرنا ہے اگر عوام احتیاط نہیں کریں گے تو ان کا اپنا نقصان ہوگا اور یہاں صورتحال کچھ اس قسم کی ہے: ”لاک ڈاؤن میں نرمی، پشاور میں شہری اُمڈ آئے، شدید ٹریفک جام، جی ٹی روڈ، خیبر روڈ، یونیورسٹی روڈ اور دوسری بہت سی شاہراہوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں، اندرون شہر بھی سڑکوں پر ٹریفک جام رہا، یہ چند خبریں جو تصویر پیش کررہی ہیں وہ یقینا کوئی اچھی تصویر نہیں ہے۔ ہمارے یہاں جس تواتر سے باشعور عوام کی ترکیب استعمال ہوتی ہے اب اس پر ہمیں شک ہونے لگا ہے یوں لگتا ہے جیسے وبا کے دنوں میں عوام اپنا شعور کھوچکے ہیں، خیبر پختونخوا میں کورونا سے ایک دن میں مزید 9افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور چار سو اٹھاون نئے مریض رپورٹ ہوئے ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود شہریوں کی ایک بڑی تعداد ہر روز گھروں سے باہر نکلنا ضروری سمجھتی ہے اور حکومتی احکامات بھی نظرانداز کئے جاتے ہیں، ایس او پیز پر عمل درآمد بھی نہ ہونے کے برابر ہے شہریوں کیلئے ماسک کو لازمی قرار دیا گیا ہے لیکن کس کو کہہ رہے ہو؟ یقین کیجئے ہم ہر روز کالم لکھنے سے پہلے یہ ارادہ کرتے ہیں کہ آج ہمارے کالم میں کورونا کا ذکر بالکل نہیں ہوگا اس کمبخت کا ذکر کرتے کرتے یہ ہماری زندگی کا اٹوٹ انگ ہوتا چلا جارہا ہے لیکن اب اس کا کیا علاج کہ صبح سویرے اخبار پر نگاہ ڈالتے ہیں تو کورونا ہمارا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ میڈیا کا کام ہی خبر دینا ہے اس کا کام تو معاشرے کی سچی تصویر پیش کرنا ہے، اگر تصویر ہی بدصورت ہو تو پھر میڈیا کیا کرے؟ تھوڑی دیر کیلئے کورونا کو اپنے حال پر چھوڑتے ہوئے کچھ ذکر ان موضوعات کا کرتے ہیں جن پر کالم نگاروں کی نظرکرم پڑتی رہتی ہے، ہر کالم نگار کیساتھ کچھ قارئین کرام جڑے ہوتے ہیں جو اپنی آراء سے بھی انہیں نوازتے رہتے ہیں، یقینا بہت سے کالم مفید مشوروں کی روشنی میں بھی لکھے جاتے ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ہر بات کو اپنے کالم کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی ہر مشورے پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے دوست اس بات کا گلہ کرتے ہیں کہ اگر فلاں موضوع کے حوالے سے فلاں بات کا تذکرہ بھی ہو جاتا تو اس سے کالم میں جان پڑ جاتی۔ ہمارا موقف یہ ہوتا ہے کہ بھائی اس وقت وہ بات ہمارے ذہن میں نہیں آئی ورنہ وہ بھی لکھ ڈالتے۔ جہاں تک جان پڑنے کا تعلق ہے تو اس حوالے زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں ہے کہ یہ ایک دن کی بات تو نہیں ہے، روز کا رونا ہے، کوئی کالم جاندار ہوگا تو کوئی کمزور، دھوپ چھاؤں کا سفر یوں ہی جاری رہتا ہے، کوئی کہاں تک لکھے؟ اور پھر سب پڑھنے والوں کو مطمئن کرنا کسی بھی لکھاری کیلئے ممکن نہیں ہوتا۔ سیاست کا شعبہ ہی ایسا ہے کہ سیاستدانوں کو ہدف تنقید بنانا پڑتا ہے اب ان کے چاہنے والے بھی بہت ہوتے ہیں وہ اپنے لیڈر سے اندھی محبت کرتے ہیں، اسی طرح کوئی خوش تو کوئی ناراض! اب کچھ قارئین کا خیال ہے کہ کورونا پر کم سے کم لکھا جائے کیونکہ اس پر سب لکھ رہے ہیں کسی طرف سے ہوا کا خوشگوار جھونکا بھی آنا چاہئے! ہوا کا خوشگوار جھونکا کسے اچھا نہیں لگتا ہم بھی خوشیاں بانٹنے کو عبادت کے درجے میں سمجھتے ہیں لیکن جب صورتحال کچھ اس قسم کی ہو تو بندہ کیا کرے؟
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام