2 224

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش کی وجہ سے طلبہ وطالبات بہت زیادہ پریشان ہیں، کہتے ہیں جب نعمت چھین لی جاتی ہے تو پھر اس کی قدر آتی ہے۔ اب طلبہ کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ گھر بیٹھنا ایک مشکل اور بے فائدہ تجربہ ہے، پچھلے چند دنوں سے ہم سے مختلف قسم کے سوالات پوچھے جا رہے ہیں جو وقت ضائع ہوا ہے اب اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟ تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد امتحانات کی کیا صورتحال ہوگی؟ ہمیں اپنے اچھے مستقبل کیلئے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں؟ طلبہ کی طرف سے پوچھے جانے والے یہ سوالات اس لئے بھی خوش آئند ہیں کہ ان میں بچوں کا احساس ذمہ داری جھلکتا نظر آتا ہے، اگر ایک مرتبہ وقت کے ضیاع کا احساس پیدا ہوجائے تو پھر اس کی تلافی کے حوالے سے بھی سوچا جاتا ہے سب سے اہم اور ضروری بات تو زندگی کے مقصد کا واضح ہونا ہے سفر شروع کرنے سے پہلے منزل کا تصور واضح ہونا چاہئے، منزل کا تعین پہلے سے کر لیا جائے تو پھر سفر آسان ہوجاتا ہے، زندگی کا مقصد یا ارادہ سب سے اہم ہے، اکثر طلبہ کے سامنے کوئی واضح مقصد نہیں ہوتا صرف خواہشات سے منزلیں نہیں ملا کرتیں، ارادہ ایک قوت ہے توانائی ہے، ارادہ مضبوط ہو تو کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔ ایک امریکی دانشور ڈاکٹر وین ڈائر نے ارادے پر The Power of Intention کے عنوان سے ایک شاندار کتاب لکھ رکھی ہے، طلبہ وطالبات کیلئے اس کتاب کا مطالعہ بہت ضروری ہے، اس کتاب کا بنیادی خیال یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز ارادے کیساتھ جڑی ہوئی ہے یعنی بغیر ارادے کے اپنی منزل کی طرف سفر شروع نہیں کیا جاسکتا، ارادے کا ہونا بہت ضروری ہے۔ طلبہ نے سب سے پہلے اپنے لئے منزل کا تعین کرنا ہوتا ہے، ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، سی ایس پی آفیسر، پروفیسر، سائنسدان یا کسی بھی شعبے میں کوئی تحقیق وغیرہ جب ہدف سامنے ہو تو پھر اس تک پہنچنے کیلئے ارادے کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے مگر ڈاکٹر ڈائر کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ارادہ ایک بہت بڑی قوت کا نام ہے لیکن خالی ارادہ کر لینے سے بھی بات نہیں بنتی، اس نے ارادے کیساتھ چار اجزاء کا ہونا ضروری قراد دیا ہے۔ سب سے پہلا جز ڈسپلن نظم وضبط ہے، اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ایک باقاعدہ ٹائم ٹیبل کے تحت کام کرنا ہوتا ہے۔ بارش، آندھی، طوفان حالات جیسے بھی ہوں آپ نے اپنے ٹائم ٹیبل کو کسی بھی حال میں نہیں چھوڑنا یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ کے سامنے اپنی زندگی کا مقصد اور اس کے حصول کا مقصد ہو۔ دوسری بات wisdom ذہانت ہے، بات صرف ٹائم ٹیبل تک محدوود نہیں ہونی چاہئے اس کیساتھ ذہانت کا ساتھ ہونا بہت ضروری ہے۔ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ کیا آپ اپنا پڑھا ہوا سیکھا ہوا بیان کرسکتے ہیں؟ آپ کی ابلاغ کا کیا معیار ہے؟ آپ اپنا سیکھا ہوا آسان الفاظ میں لکھ سکتے ہیں؟ ذہانت کے بغیر مقصد کی تکمیل کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ آپ کی کوششیں، محنت اور منصوبہ بندی صحیح سمت میں ہیں؟ اس کا تعین بھی ذہانت سے ہوتا ہے، تیسرا جز محبت ہے بات اگر صرف ذہن تک محدود ہو تو نامکمل ہوتی ہے، اس میں دل کا شامل ہونا بھی بہت ضروری ہوتا ہے، اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
اپنے مقصد کیساتھ محبت، لگن اور شوق ہو تو پھر رات دن کا ہوش نہیں رہتا، پھر آپ اسے کام نہیں سمجھتے یہ آپ کا شوق بن جاتا ہے، کام اور شوق میں بڑا فرق ہوتا ہے، آپ اپنے تن، من، دھن سے بیگانے ہوجاتے ہیں۔ آپ کے سامنے صرف اور صرف اپنے مقصد زندگی کی تکمیل رہ جاتی ہے، آپ کا ہر قدم اپنی منزل کی طرف اُٹھتا ہے:
جو راہ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب وفراز کیا جانیں
ڈسپلن، ذہانت، محبت کے بعد چوتھا جز مکمل طور پر سر تسلیم خم کر دینا ہے، اپنے مقصد کے سامنے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دینے ہیں، آپ اپنے آپ کو اپنے ارادے کے اختیار میں دے دیتے ہیں، اب آپ کا ہر کام اپنے ارادے کی تکمیل کیلئے ہوتا ہے، یہ وہ مقام ہے جب آپ کا مقصد ہی آپ کا عشق بن جاتا ہے۔ آپ اپنے مقصد اپنے ارادے کو اجازت دے دیتے ہیں کہ وہ آپ کو اپنے کنٹرول میں رکھے۔ جب آپ کا ہر قدم اپنی منزل کی طرف اُٹھتا ہے تو پھر کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔ طلبہ کیلئے یہ جان لینا بہت ضروری ہے کہ خواہشات اور مقصد میں بڑا فرق ہوتا ہے، خواہشات تو سب کی ہوتی ہیں لیکن کسی عظیم کام کا ارادہ کرلینا اور پھر اس پر ڈٹ جانا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اس حوالے سے قائداعظم محمد علی جناح نے بڑی خوبصورت بات کہی تھی ”کوئی ارادہ کرنے سے پہلے اس پر ایک سو مرتبہ سوچو اور پھر اس پر چٹان کی جم جاؤ” ارادے کیساتھ اگر ڈسپلن، ذہانت، محبت اور مکمل اطاعت شامل ہوجائیں تو پھر منزل کا حصول زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ منزلیں ہمیشہ ان کا استقبال کرتی ہیں جو اپنے آپ کو ان صفات سے آراستہ کرکے میدان عمل میں قدم رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا