p613 63

کرپٹ نظام کے خاتمے کا وعدہ ایفاء کیوں نہ ہو سکا ؟

نوے روز میں کرپشن کا خاتمہ تحریک انصاف کے منشور کا حصہ اور انتخابی نعرہ تھا’ اگست 2020ء میں تحریک انصاف کی حکومت کو پورے دو سال بیت جائیں گے لیکن کرپشن کے خاتمے کا وعدہ ایفاء نہیں ہو سکا ہے’ بلکہ وزیر اعظم عمران خان خود تسلیم کر رہے ہیں کہ پنجاب میں نچلی سطح پر کرپشن ختم نہیںہو سکی ہے ‘ انہیں لاہور اور میانوالی سے بہت کچھ پتا چلا ہے’ وزیر اعظم عمران خان نے برملا کہا کہ ہمارا ملکی سسٹم ایسا ہے کہ کسی کو آسانی سے کام نہیں کرنے دیا جاتا’ جب کہ نظام کی ہی خرابی کے باعث ترقیاتی منصوبہ ناکام ہوتے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے لاشیخوپورہ میں قائد اعظم بزنس پارک کے سنگ بنیاد کی تقریب میں جس کا اہتمام لاہور میں کیا گیا تھا، یقین دہانی کرائی کہ ہم بزنس مین کیلئے آسانیاں پیدا کریں گے ‘ وزیر اعظم عمران خان نے عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومتی نظام انحطاط پذیر ہوا ہے اور ترقی میں سہولت کار کے مقابلے میں رکاوٹ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے کہ تاجر طبقہ کیلئے کرپٹ نظام کی وجہ سے تجارت کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں تو یہ المیے کی بات ہے ‘ آخر ایسا کیوں ہے کہ بار بار اقتدار و اختیار رکھنے والے افراد اپنے اثاثوں میں اضافہ کے چکر میں پورے نظام کو تباہ کر دیتے ہیں؟ کرپٹ نظام کی پوری ذمہ داری موجودہ حکومت پر ڈالنا بہت مشکل امر ہے کیونکہ نظام کی خرابی محض چند ماہ یا ایک دو سالوں میں نہیں آئی’ بلکہ اس خرابی کی وجہ گذشتہ تین یا اس سے زائد دہائیوں پر مشتمل وہ نظام حکومت ہے جس میں کرپشن کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا ۔ حیرت مگر اس بات پر ہوتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ دو سالوں میں نظام کی درستگی کیلئے کیا اقدامات اُٹھائے ہیں؟ اگر وزیر اعظم عمران خان دو سال اقتدار کے بعد بھی نظام کا رونا رو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے عوام نے تحریک انصاف کی حکومت سے جو اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں انہیں پورا ہوتے ہوئے مزید وقت درکار ہے ‘ اور شاید تحریک انصاف کے موجودہ دورِ حکومت میں اس خوشحالی کا خواب پورا نہ ہو سکے جو تحریک انصاف نے پاکستان کے عوام سے وعدہ کر رکھا تھا کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں دو سال پہلے ہی گزار چکی ہے ‘ اگر حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہے تو اس کے پاس ابھی تین سال باقی بچتے ہیں جن میں آخری سال تو الیکشن کمپین کی نذر ہو جاتا ہے ‘ اس طرح کام کرنے کیلئے حکومت کے پاس صرف دو سال باقی رہ گئے ہیں’ ان دو سالوں میں حکومت کو نظام کی درستگی کیساتھ ساتھ کارکردگی میں بھی بہتری لانی ہو گی۔ پاکستان کے موجودہ حالات نامساعد کی ذمہ دار اگرچہ تنہا تحریک انصاف نہیں ہے’ لیکن چونکہ اقتدار میں اس وقت تحریک انصاف ہے اس لئے عوام بہرکیف تحریک انصاف کی حکومت سے ہی توقع رکھتے ہیں اور حالات کا ذمہ دار بھی موجودہ حکومت کو ہی ٹھہرائیں گے۔تحریک انصاف کے دو سالہ اقتدار میں کوئی میگا پراجیکٹ سامنے نہیں آ سکا ہے’ اگر باقی ماندہ سالوں میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جاتا ہے تو اس دور حکومت میں ان کی تکمیل کی ضمانت نہیں دی جا سکتی’ بی آر ٹی منصوبہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ سابق صوبائی حکومت نے اپنے دور حکمرانی کے آخری چند ماہ میں اس منصوبے کا آغاز کیا اور تکمیل کی تاریخ چھ ماہ دی ‘ سابق صوبائی حکومت کا اپنے تئیں خیال تھا کہ دور حکمرانی کے اختتام سے قبل ہی وہ بی آر ٹی کا افتتاح کر دے گی لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس نکلے اور آج تین سال بعد بھی بی آر ٹی منصوبہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا ہے۔ اس پس منظر کو دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی حکومت کے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے اور اس کم وقت میں حکومت نے نظام کو درست بھی کرنا ہے اور اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی مسائل کو حل بھی کرنا ہے’ دریں حالات حکومت کو بیک وقت دو محاذوں پر جانفشانی سے کام کرنا ہو گا’ کورونا کے باعث حکومت کوکسی قدر مالی مشکلات کا سامنا ہے ‘ اس لیے حکومت عوام کے سامنے عذر پیش کر کے سرخرو ہو سکتی ہے لیکن اگر پانچ سالوں میں نظام کی درستگی نہ ہو سکی تو حکومت کے پاس عوام کو مطمئن کرنے کیلئے کوئی عذر ہو گا اور نہ ہی عوام حکومتی عذر کو قبول کریں گے’ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم کرپٹ نظام کا خاتمہ کر کے اس کی جگہ صاف و شفاف نظام نافذ کر دیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اس شفاف نظام کے تحت زندگی گزار سکیں۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا