logo 33

سفارتکاری اور ملکی سیاست کا فرق سمجھئے

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک حالیہ بیان سے سفارتی سطح پر پیدا مسائل کی سنگینی کو نظرانداز کرنا بہت مشکل ہے، عجیب بات یہ ہے کہ ان جیسے جہاندیدہ سیاستدان سے یہ غلطی پہلی بار نہیں ہوئی وہ قبل ازیں بھی ایک موقع پر ایسا بیان دے چکے ہیں جس سے ایک مسلم پڑوسی ملک کی قیادت نے باضابطہ طور پر اپنا ردعمل پاکستانی وزارت خارجہ تک پہنچایا تھا۔ مسئلہ کشمیر کیلئے پاکستانی موقف کی ہمنوائی کیلئے بحیثیت وزیرخارجہ ان کا فرض ہے کہ وہ دوست خصوصاً مسلم دوست ممالک سے سفارتکاری کے ذریعے حمایت حاصل کریں لیکن انہیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ممالک کے درمیان تعلقات مذاہب وعقیدوں پر استوار نہیں ہوتے یہ خوش فہمی فقط پاکستان کو ہی لاحق رہتی ہے کہ مسلم برادر ولی زندہ حقیقت ہے حالانکہ بنیادی چیز معاشی مفادات ہیں۔ کامیاب سفارتکاری یہ ہے کہ دوست ممالک کے معاشی مفادات بھی محفوظ رہیں اور وہ انسانی بنیادوں پر آپ کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت بھی کریں۔ وزیر خارجہ ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں سیاسی عمل میں 35 سالوں کے دوران اگر وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھ پائے تو یہ افسوس کی بات ہے۔ مناسب ہوگا کہ وہ الفاظ کے چنائو میں احتیاط کیا کریں تاکہ بہت سارے داخلی وعلاقائی مسائل سے دوچار پاکستان کیلئے سفارتی محاذ پر نئی مشکلات کا دروازہ نہ کھلنے پائے۔
بجلی کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سے پریشان شہری
پشاور اور صوبے کے دوسرے شہروں وقصبات سے نامہ نگاروں نے بجلی کی غیراعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ سے پیدا شدہ صورتحال اور عوام کو درپیش مسائل کے حوالے سے توجہ دلاتے ہوئے یہ سوال بھی پوچھا ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بدترین اضافوں کے باوجود لوڈشیڈنگ کیوں؟ نامہ نگاران کے توسط سے صارفین کا دوسرا سوال ہے کہ 24گھنٹوں میں مشکل سے 8 سے 10 گھنٹے اور بعض علاقوں میں 6 سے 8 گھنٹے بجلی کی فراہمی کے باوجود ماہانہ بلوں کی رقوم جوں کی توں کیوں ہیں۔ ہماری رائے میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے ذمہ داروں کو نہ صرف عوام الناس کے سوالات کاجواب دینا چاہئے بلکہ انہیں بتانا چاہئے کہ اگر ایک صارف بجلی کی فراہمی سے 6 سے 8 یا 8 سے 10گھنٹے استفادہ کر پاتا ہے تو اس کے ماہانہ بل کی رقم میں وہ کمی کیوں نہیں دکھائی دیتی؟ وزارت پانی و بجلی کے دعوے تو یہ ہیں کہ بجلی کی پیداوار ضرورت سے کچھ زیادہ ہے تو طویل دورانیہ کی لوڈشیڈنگ کیوں؟ وفاقی وزیر توانائی اور دیگر کو خیبرپختونخوا کے بجلی صارفین کی شکایات کا کسی تاخیر کے بغیر نوٹس لینا چاہئے اور بلا جواز لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بند کروانا چاہئے۔
افغان معاہدہ امن’ فریقین سے مؤدبانہ درخواست
امریکہ نے افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ افغان معاہدہ امن پر عمل کیلئے کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی جائے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ طالبان کے قیدیوں کی رہائی یقینا آسان بات نہیں لیکن افغان حکومت کو آگے بڑھنے کیلئے اقدامات اُٹھانے ہوں گے۔ افغان معاہدہ امن کے بنیادی فریق اگر معاہدہ کیلئے مذاکرات کے عمل کے دوران وسعت قلبی کو مفادات پر ترجیح دیتے تو مثبت نتائج کم سے کم وقت میں حاصل کئے جاسکتے تھے۔ اصولی طور پر امریکہ کا فرض تھا کہ وہ افغان حکومت کو اس عمل میں شریک کرتی۔ حالیہ لویہ جرگہ کے بعد ایک بار پھر افغان حکومت اور طالبان کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں، طرفین کے بیانات سے افغان عوام اور امن پسندوں کی تشویش کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغان تاریخ کے اس موڑ پر تنازعہ کے فریقوں کو تحمل وبرد باری کامظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ پائیدار قیام امن کیلئے آگے بڑھا جاسکے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ طرفین اختلافات کو اپنے قومی وملکی مفاد میں حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا