4 152

جمہوریت کی روح

وطن عزیز میں جمہوریت کے حوالے سے بحث مباحثے ہمیشہ عروج پر رہتے ہیں، پارلیمنٹ کے تقدس کی باتیں بھی ہوتی ہیں اور اس حوالے سے بڑی پرجوش تقاریر بھی سننے کا موقع ملتا رہتا ہے، اسی لئے عام آدمی کے ذہن میں جمہوریت کے حوالے سے بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں کہ آخر یہ جمہوریت ہے کیا؟ آخر اس میں ایسی کیا خوبی ہے کہ سب اس پر فدا ہیں، کوئی اسے برا نہیں کہتا سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایک جمہوری نظام میں ہی ہماری بقا ہے، اس قسم کے جملے عام طور پر سننے کو ملتے ہیں کہ ایک لنگڑی لولی جمہوریت آمریت سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے، جمہور سے مراد عوام ہیں اور اگر جمہوریت عوام کو کچھ نہیں دے سکتی تو پھر اس قسم کی جمہوریت پر بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں، جن لوگوں نے جمہوریت کا بیج بویا اس کے قوانین وضع کئے اور پھر اسے ایک تناور درخت بننے کا موقع دیا وہ عوام سے جڑے ہوئے تھے اور ان کے نزدیک جمہوریت کے سارے راستے عام آدمی کی فلاح وبہبود پر پہنچ کر ختم ہوتے ہیں اور جن ممالک میں جمہوریت اپنی اصل روح کیساتھ موجود ہے وہاں عوام بڑی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اور جمہوریت کے حوالے سے جتنی بھی تشریحات ہمیں سننے کو ملتی ہیں اس کی جتنی خوبیاں بھی ہمیں بتائی جاتی ہیں وہ ان ترقی یافتہ ممالک میں موجود جمہوریت ہی کے حوالے سے ہوتی ہیں، اس حوالے سے جب وطن عزیز کی صورتحال کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمارے ہاں عوام کو جمہوریت کا وہ پھل نہیں ملا جس کیلئے یہ مشہور ہے، ہمارے ہاں جمہوریت صرف انتخابات کے دنوں میں اپنی جھلک دکھاتی ہے جب جمہوریت کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے والے عوام کے پاس ووٹ مانگنے آتے ہیں اور جب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر مقدس اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر انہیں اپنے ووٹر یاد نہیں رہتے ہمیں۔ پشاور، لاہور اور دوسرے بڑے بڑے شہروں کے بڑے نامی گرامی سیاستدانوں کے انتخابی حلقوں میں گھومنے پھرنے کا موقع ملا تو وہاں کی شکستہ حال سڑکیں دیکھ کر بے اختیار ہمارے منہ سے یہی نکلا کہ یہ کیسے لوگ ہیں، کیا ان کے پاس اتنے فنڈز بھی نہیں ہوتے کہ یہ اپنے علاقے کی سڑکوں کی مرمت ہی کروا سکیں؟ جب دانشوروں کی جمہوریت کے حوالے سے تشریحات پڑھنے کو ملتی ہیں تو ایک ہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ جمہوریت کی کہانی عام آدمی سے شروع ہو کر عام آدمی پر ہی ختم ہوتی ہے۔
سقراط کا کہنا ہے کہ اصل بہادری وہ ہے جو خطرات کے متعلق صحیح علم سے پیدا ہوتی ہے نیک وبد کا امتیاز اس کی بنیاد ہونا چاہئے رنگ ساز جب کپڑے پر پکا رنگ چڑھانا چاہتے ہیں تو پہلے اس کو اچھی طرح دھو لیتے ہیں جب خوب صاف کرنے کے بعد کپڑا رنگا جائے تو رنگ پختہ ہوتا ہے، تعلیم بھی اسی طرح کپڑے کی اصل زمین کو صاف کرتی ہے اس کے بعد قوانین کے رنگ اس پر اچھی طرح چڑھ سکتے ہیں، آج ہم نے تعلیم کو تجارت بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ منافع بخش انڈسٹری کے روپ میں سامنے آئی ہے، جمہوریت کا دم بھرنے والوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہم جن لوگوں کے ووٹوں سے اقتدار میں آتے ہیں ان کی اکثریت اچھی تعلیم سے محروم ہے، چار پانچ فیصد مراعات یافتہ طبقات کے بچے ہی اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک اچھی ریاست میں تمام لوگ درحقیقت ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوتے ہیں، محبت اور اتفاق کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ایک کی مصیبت سب کی مصیبت معلوم ہوتی ہے اور کسی ایک شخص کی راحت میں سب کی راحت ہوتی ہے۔ جب تک یہ صورت نہ ہو کوئی جماعت حقیقت میں منظم اور عادل نہیں ہو سکتی، اس سے حاکم ومحکوم کی تفریق بھی ختم ہوجاتی ہے، حاکم نجات دہندہ اور معاون کہلاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جس جمہوریت کا چلن ہے اس میں یہ سب باتیں دور دور تک نظر نہیں آتیں، یہاں لوگ پریشان ہیں آئے دن خودکشیاں ہو رہی ہیں، لوگوں کو حالات نے مجبور کر دیا ہے کہ وہ سود پر قرضے لیں جو ایک مرتبہ سود کی لعنت میں گرفتار ہوجاتا ہے پھر اس کا بچنا محال ہوجاتا ہے، مہنگائی اور بیروزگاری نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ آج کے اس جدید دور میں کوئی پاگل ہی جمہوریت کو برا کہہ سکتا ہے لیکن جمہوریت کی موجودہ خامیاں تو دور کرنے کی کوشش کریں۔ جمہوریت کے ثمرات جب تک عام آدمی تک نہیں پہنچتے اس وقت تک یہ آمریت سے بدتر رہے گی۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ