مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کو حاصل کرنے میں اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کا کوئی کردار نہیں، آج بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کہاں ہے اور عوام کہاں ہے؟ ہماری معلومات کے مطابق اس بار اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئی ہیں، یہ کیسا الیکشن ہے جس میں ہارنے والے مطمئن نہیں اور جیتنے والے بھی پریشان ہیں، جیتنے والوں کے اپنے لیڈر اپنے مینڈیٹ کو مسترد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت آج کہاں کھڑی ہے انہوں نے کہا کہ دیوار کے پیچھے جو قوتیں ہمیں کنٹرول کرتی ہیں فیصلے وہ کریں اور منہ ہمارا کالا ہو۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایوان میں عوامی نمائندے ہونے چاہئیں مگر ایسا نہیں ہے، الیکشن میں جو ہوا سب نے دیکھ لیا اور ہم بھی اپنے فیصلے پر مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو، شہباز شریف کو کہتا ہوں کہ عوامی نمائندے بنیں اور حکومت چھوڑ دیں اور پی ٹی آئی کو حکومت دیں کیونکہ الیکشن میں زیادہ سیٹیں انہی کی ہیں مگر ہمارے سیاست دانوں کو یہ بات جاہلانہ لگے گی۔دوسری جانب سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے پی ٹی آئی کو ایک بار پھر اسمبلیوں سے استعفے دے کر سڑکوں پر احتجاج کرنے کا مشورہ دے دیا ہے۔تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف سیاسی جماعتوں اور حکومت وقت سے ہی مذاکرت کے حامی ہیں۔ دریں اثناء نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بڑی اہم بات کہی ہے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ سیاستدان اکٹھے ہوکر ملک کو سنبھالیں، ہم اس وقت بھی بات چیت کے لئے تیار تھے جب پی ٹی آئی ہمیں جیلوں میں ڈال رہی تھی۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سیاستدان پہلے بھی اور آج بھی معاملے کو کسی سمت لگنے نہیں دے رہے، جب تک ہم مل کر نہیں بیٹھیں گے یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ملک میں سول بالادستی چاہتے ہیں، کسی ادارے سے محاذ آرائی ہرگز ہمارا مقصد نہیں، اگر اسٹیبلشمنٹ اپنے کردار میں واپس چلی جاتی ہے تو پھر ہمیں مزاحمتی بیانیہ اپنانے کی کیا ضرورت ہے۔ایک جانب جہاں محولہ سیاسی عمائدین کے خیالات میں ہم آہنگی نظر آتی ہے وہاں دوسری جانب جہاں ایک جانب سنی اتحاد کے سربراہ حکومت اور سیاستدانوں سے مذاکرات کے حامی ہیں وہاں دوسری جانب بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا اسلام آباد پر قبضے کا بیان درست ہے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے علی امین گنڈاپور، عمر ایوب اور شبلی فراز کے علاوہ کسی کو بھی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کا اختیار نہیں دیا ۔مشکل امر یہ ہے کہ تحریک انصاف ایک جانب جہاں سیاسی معاملات اور بانی چیئرمین کے مقدمات کا حل چاہتی ہے گو کہ ان کی جانب سے سیاسی مذاکرات کا عندیہ بھی ملتا ہے مگر دوسری جانب وہ متضاد حکمت عملی کا بھی اظہار کرتی ہے ان کی جانب سے اسلام آباد پر قبضہ کرنے اور اسٹیبلشمنٹ ہی سے مذاکرات کی خواہشیں ایسی رکاوٹیں ہیں جن کو دور کئے بغیر ملک میں سیاسی مکالمہ کی راہ ہموار ہونا مشکل نظر آتا ہے مقتدرہ کے کردار اور اثر پذیری سے صرف نظرممکن نہیں لیکن دوسری جانب ان سے راستہ اور رہائی مانگنا اور اس کا علی الاعلان اظہار کسی بھی طور سیاسی مصلحت کے حامل نظر آنے والا موقف نہیں مذاکرات سیاستدانوں اور حکومت سے ہونے ہوتے ہیں اور پس پردہ معاملات ملک کی سیاست میں حقیقت ضرور ہیں مگر آئین و قانون میں اس کی قطعی گنجائش نہ ہونے کے باعث اسے کوئی جامہ پہنانا پڑتا ہے تحریک انصاف بھی اگر ایسا کرنے کی حکمت عملی اپنالے تو پھر معاملات آگے بڑھ سکتے ہیںمولانا فضل الرحمن کے قومی اسمبلی میں خطاب میں حالات کی جو منظر کشی کی گئی ہے اس سے وضاحت کے ساتھ صورتحال کو واضح کرنے کی ضرورت نہیں خوش آئند امر یہ ہے کہ مسلم لیگ نون سمیت دیگر سیاسی جماعتیں سیاسی مکالمہ کے لئے تحریک انصاف کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں اور یہی واحد نسخہ کمیا ہے کہ مل بیٹھ کر غیر سیاسی کرداروں کو ان کے اصل مقام اور حدود تک محدود کیا جاسکتا ہے جس سے ملک میں سیاسی استحکام اور پارلیمان و سول بالادستی کا سورج طلوع ہوگا۔موزوں امر ہی یہی ہوگا کہ سیاستدان اپنی داڑھی کسی اور کے ہاتھ میں دینے کی بجائے باہمی طور پر مل بیٹھ کر اپنے مسائل و معاملات کا مستقل حل نکالیں اور ایسا فارمولہ وضع کیا جائے کہ کسی کے مداخلت کی نوبت نہ آئے گزشتہ روز سینٹ میں پی پی پی کی جانب سے سیاسی مکالمے کی ضرورت کا اعادہ کیا گیا جبکہ انتخابی عمل سے باہر ہونے والے ٹھوس موقف رکھنے والے مسلم لیگ نون کے رہنمائوںکی جانب سے بھی سیاسی مکالمے کی حمایت ہو رہی ہے اس کے باوجود تلخ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ یہ عمل کچھ درپردہ اور کچھ علانیہ قسم کی مساعی کامتقاضی ہے جس میں پردہ نشینوں کو بھی بہرحال کسی نہ کسی حد تک اعتماد میں لینا ہو گا تاکہ معاملات کا کوئی ٹھوس اور مستقل حل نکل آئے سیاسی میثاق ملکی ضرورت اور تحریک انصاف کے لئے موجودہ حالات سے نکلنے کا باعزت راستہ بھی ہے جو ڈیل سے ممکن نہیں سیاسی مکالمہ اور میثاق جمہوریت سے ہی ممکن ہو سکے گا۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے