logo 40

گیس کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کی سنجیدہ کوشش

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے زیر صدارت سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کو بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا میں گیس کے کم پریشر کا مسئلہ حل کرنے کیلئے 2.6ارب روپے کے تخمینہ لاگت سے مردان سے چارسدہ اور چارسدہ سے پشاور تک نئی ٹرانسمیشن لائن بچھائی جارہی ہے۔اسی طرح رشکئی میں کم پریشر کا مسئلہ حل کرنے کیلئے بھی 1.2ارب روپے کی لاگت سے منصوبے پر کام شروع ہے۔ حطار اکنامک زون کو گیس کی فراہمی کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جارہا ہے۔یہ درست ہے کہ نہ تو مسائل راتوں رات جنم لیتے ہیں اور نہ ہی ان کا راتوں رات حل ممکن ہے، حکومت کی اس ضمن میں ممکنہ اقدامات اور توجہ جہاں ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے ضروری ہے وہاں عوام کم ازکم حکومت پر عدم توجہ کا الزام نہیں دے سکتے۔ وزیراعظم عمران خان نے آمدہ موسم سرما میں گیس کے بحران کا عندیہ یقینا اعلیٰ سطح پر حقائق سے آگاہی کے بعد ہی دیا تھا، ان کا حقیقت پسندانہ بیان بہرحال عوام کیلئے پریشانی کا باعث امر ضرور تھا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا اس ضمن میں بروقت ممکنہ سعی گیس صارفین کیلئے اطمینان کا باعث امر ہے صوبے میں موسم سرما میں گیس کی لوڈ شیڈنگ معمول ہے، بی آرٹی کا ریڈور بننے کے دوران صوبائی دارالحکومت پشاور کے گیس صارفین کو نہ صرف سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ٹرانسمیشن لائن میں کوئی ایسا نقص رہ گیا ہے کہ پورے شہر میں گیس کی سپلائی متاثر ہوئی ہے جس کی متعلقہ ادارے کو بروقت جانچ پڑتال کی ذمہ داری پوری کر لینی چاہئے۔گیس کی کم پریشر کا مستقل بنیادوں پر حل کیلئے منصوبہ خوش آئند ہے اس طرح کا ترقیاتی عمل بہرحال بڑھتی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تسلسل سے جاری رہنا چاہئے۔ قابل اطمینان امر یہ ہے کہ یہ منصوبے موجودہ دور حکومت ہی میں مکمل کئے جائینگے۔
ٹرانسپورٹ فیس کا ناجائز مطالبہ
پشاورمیں نجی سکولوں کے مالکان کی جانب سے ٹیوشن فیسوں کیساتھ ٹرانسپورٹ کی فیسیں بھی وصول کی جانے لگی ہیں، بعض نجی سکول مالکان نے اپنے طلبا اورطالبات کو ٹرانسپورٹ فیسیں بھی جمع کرانے کی ہدایت کردی ۔ والدین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کاقبلہ درست کرنے کیلئے فوری طورپر اقدامات اُٹھائے جائیں،بصورت دیگر نجی سکولوں کیخلاف باقاعدہ تحریک شروع کی جائے گی۔امر واقع یہ ہے کہ بعض پرائیویٹ سکولوں نے بعض طالب علموں سے ایڈوانس ٹرانسپورٹ فیس کی وصولی کردی تھی خاص طور پر میٹرک کے طالب علم جنہوں نے ٹرانسپورٹ فیس تو ایڈوانس میں ادا کردی تھی مگر سکول کی ٹرانسپورٹ استعمال نہیں کی، اصولاً ان کو ٹرانسپورٹ کی فیس واپس ملنی چاہئے تھی بہرحال اس سے قطع نظر جب طلبہ نے سکول کی ٹرانسپورٹ ایک دن بھی استعمال نہیں کی تو ان سے فیسوں کی وصولی کا بھی کوئی جواز نہیں، نجی سکولوں اور والدین کے درمیان فیسوں میں رعایت نہ دینے اور ٹرانسپورٹ فیس کی وصولی کا جو قضیہ چل رہا ہے اس کا نوٹس لیکر حل نہ کیا گیا تو مزید احتجاج کی نوبت آسکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ سکول کھلنے کے بعد آئندہ ایک دو ماہ میںسکولز کسی نہ کسی بہانے والدین کے ذمہ کوئی نہ کوئی مزید رقم فیس سلپ میں شامل کریں گے اور والدین پر مزید اضافی بوجھ ڈالا جائے گا۔ اس ساری صورتحال کا تدارک پرائیویٹ سکولز ریگولٹری اتھارٹی کا فعال ہونا اور حکومت کی جانب سے کسی دبائو میں آئے بغیر اقدامات ہوں گے تاکہ والدین اور طلبہ کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔
وزیر تعلیم کی خصوصی توجہ درکار ہے
گرلزہائرسیکنڈری سکول ڈنڈا خولیاں کوہائرسکینڈری کادرجہ ملے چھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجودسٹاف کی تعیناتی اورانٹرا کلاسز کے اجراء کا ممکن نہ ہو نے سے میٹرک کے بعدیوسی کروڑی کی طالبات کا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے پرمجبورہونا اور گرلزپر ائمر سکول ڈنڈا خولیاں کی عمارت بھی 2005کے زلزلہ میں تباہ ہونے کے پندرہ سال گزرنے کے بعدبھی نئی عمارت کی تعمیرکاخواب محض خواب ہی ہونا حکومت کے ان تمام تر دعوئوں کی عملی نفی ہے جوصوبے میں تعلیم کے فروغ کے اقدامات کے ضمن میں کئے جارہے ہیں۔ وزیراعظم نے ہری پور میں انسٹیٹیوٹ کے افتتاح کے موقع پر بدعنوان عناصر سے رقم وصول کر کے تعلیم پر خرچ کرنے کا جو عندیہ دیا ہے اس کی نوبت کب آئے گی، اس کا اندازہ نہیں۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ مختلف حکومتیں آئیں اور چلی گئیں گزشتہ سات آٹھ سال سے صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کا منشور ہی صحت اور تعلیم کے شعبے پر توجہ ہے لیکن عالم یہ ہے کہ سکولوں کا درجہ بڑھانے کے باوجود عملہ نہیں دیا جاتا اور تباہ شدہ عمارتوں کی تعمیر نو نہیں ہوتی۔ وزیرتعلیم کو اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہئے اور جلد سے جلد محولہ دونوں مسئلے حل کر کے طلبہ کو تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کاموقع فراہم کرنے کو یقینی بنانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''