5 187

پرائمری تعلیم کیسی ہونی چاہیئے؟

پرائمری تعلیم کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ بچے کا تعلیم کے ساتھ پہلا تعارف ہوتا ہے اگر تعلیم کے حوالے سے بچے کا پہلا تاثر اچھا ہو تو اس کا تعلیمی سفر بڑا خوشگوار ہوتا ہے وہ بہت سی اہم باتیں ہنستے کھیلتے سیکھ جاتا ہے ۔پرائمری تعلیم کے حوالے سے دو نکات بڑے اہم ہیں ۔بچے کی نفسیات سے استاد کی باخبری اور استاد کا مکمل طور پر بہترین تربیت یافتہ ہونا۔ہمارے یہاں اساتذہ کی ایک کثیر تعداد غیر تربیت یافتہ ہے ۔ تعلیم کے سارے شعبے ہی اہم ہیں لیکن پرائمری تعلیم کی اہمیت سے سب واقف ہیں اور اس شعبے کو غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے حوالے کرنا تعلیم کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے ۔استاد چاہے خاتون ہو یا مرد اس کا باقاعدہ تربیت یافتہ ہونا بہت ضروری ہے ہم آئے دن اخبارات میں بچوں کو دی جانے والی سزائوں کے حوالے سے پڑھتے رہتے ہیں اس کی بنیادی وجہ اساتذہ کی تربیت کا فقدان ہے انھیں یہ شعور ہی نہیں ہوتا کہ بچوں کو کس طرح تعلیم کی طرف مائل کیا جاتا ہے ان کی دلچسپی کے میدان کیا ہیں بچوں کی غیر نصابی سرگرمیاں اتنی دلچسپ ہوں کہ وہ تعلیم میں دلچسپی لیں اوراپنے شوق سے تعلیم حاصل کریں سکول کے ماحول کو کس طرح خوشگوار رکھا جاسکتا ہے کہ ننھے طالب علم کے دماغ میں سکول سے ناغہ کرنے کا خیال ہی نہ آئے۔اچھے اور خوشگوار ماحول کے ساتھ ساتھ ایک تربیت یافتہ استاد اس بات سے بھی اچھی طرح باخبر ہوتا ہے کہ اس نے بچوں کو نرسری اور پریپ میں کیا پڑھانا ہے اور کس انداز سے پڑھانا ہے اسی طرح پانچویں جماعت تک بچے کی تعلیمی استعداد میں اضافہ کرنے کے لیے اسے کن چیزوں کا سکھانا ضروری ہے ۔ اچھے استاد وہی ہوتے ہیں جو تخلیقی صلاحیتیں رکھتے ہوں یہ کلاس میں اپنا کردار بڑے موثر انداز سے ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ حروف شناسی کے بعد بچے کی تعلیم و تربیت کا دوسرا اہم مرحلہ اس کا پڑھنا اور لکھنا ہے صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا ایک اہم مرحلہ ہے بچے کے تلفظ پر توجہ دینا بہت ضروری ہوتا ہے اگر شروع سے تلفظ درست ہوتو اس پر قائم ہونے والی عمارت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جاتی ہے ۔ پرائمری کلاسوں میں ٹیسٹ کی تیاری کو بڑی اہمیت دیجاتی ہے اسی طرح کسی پیراگراف کو کاپی کروایا جاتا ہے یا پھر سوالات زبانی یاد کرنے کے لیے رٹے لگوائے جاتے ہیں یہ ساری باتیں تربیت کے فقدان کی وجہ سے ہوتی ہیں اکثر بچے امتحان سے کچھ دن پہلے یہی کہتے ہیں کہ آج کل ہمیں استانی صاحبہ امتحان کی تیاری کروارہی ہیں ہم سے روز ٹیسٹ لیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی تعلیم و تربیت سے بچے امتحان تو پاس کرلیتے ہیں لیکن ان کی تعلیمی استعداد میں اضافہ نہیں ہوتا اس قسم کی کلاس کو آپ ایک غیر موثر کلاس کہہ سکتے ہیں ۔ ایک اچھی اور موثر کلاس وہ ہوتی ہے جس میں بچے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی مشق کرتے ہیں ان کے صحیح تلفظ پر بھرپور توجہ دیجاتی ہے وہ ہر روز نت نئے الفاظ سیکھتے ہیں اس طرح ان کے ذخیرہ الفاظ میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا رہتا ہے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چھوٹی کلاسوں میں بچوں کو اپنی مرضی کے مطالعے کی عادت ڈالی جائے نصاب کی کتابوں تک ان کا مطالعہ محدود نہیں ہونا چاہیے اگر چھوٹی عمر میں وہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھتے ہیں تو ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے! ہمارے یہاں تو یہ تصور ہی نہیں ہے جو کتاب نصاب میں شامل ہے بچے اسے بھی پورے سال میں ٹھیک طرح سے نہیں پڑھ پاتے! ایک سبق کو طوطے کی طرح پڑھ لینے کے بعد اس کے آخر میں دیے گئے مشقی سوالات حل کروادیے جاتے ہیں جنھیں بچہ زبانی یاد کرلیتا ہے پھر سالانہ امتحانات میں بچے کی تعلیمی استعداد انھی سوالات کے درست جوابات لکھنے پرپرکھی جاتی ہے یہ ایک روٹین کا عمل ہے جو ہر سال دہرایا جاتا ہے اس قسم کی تعلیمی سرگرمی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور وہ ختم ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ رچرڈ ایلنگٹن ایک جانے پہچانے ماہر تعلیم ہیں بین الاقوامی معیار کے حامل تعلیمی رسالوں میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں یہ ایک اچھی اور موثر کلاس کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کلاس میں بچے کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا موقع دیا جائے اگر وہ تلفظ کی غلطی کرتا ہے تو اسی وقت اس کی غلطی بڑے پیار سے درست کی جائے اسے بار بار وہ لفظ پڑھا یا جائے اسی طرح جب کلاس میں ایک پیراگراف سب بچے مل کر پڑھ لیں تو پھر اس پیراگراف پر ایک جامع مباحثہ ہونا چاہیے جس میں ہر بچے کو بولنے کا پورا پورا موقع دیا جائے استاد کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ کلاس میں طلبہ کے سامنے نت نئے سوالات اٹھائے تاکہ طلبہ کو سوچنے کا موقع ملے ۔جب کلاس کا ہر بچہ پیراگراف پر آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے تو اس دوران وہ بہت کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے اس کا اپنی ذات پر اعتماد بڑھ رہا ہوتا ہے ایک اچھی کلاس وہ ہوتی ہے جس میں طلبہ زیادہ سے زیادہ بولتے ہیں انھیں زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے کہتے ہیں ایک معیاری کلاس وہ ہوتی ہے جس میں طلبہ کے بولنے کی شرح 80فی صد ہو ! لیکن اس وقت بچوں کو کورونا وائرس سے بچانا ہے باقی سب کچھ تو ہوتا رہے گا ! ۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام