p613 129

مشرقیات

حضرت بایزیدبسطامی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بلخ کا ایک نوجوان حج کو جاتے ہوئے میرے پاس حاضر ہوا جو انتہائی متوکل اور صابر نوجوان تھا ۔ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ زہد کی حقیقت آپ کے نزدیک کیا ہے ؟ میں نے کہاکہ جب ہمیں ملے تو کھالیں اور جب نہ ملے تو صبرکریں ۔ اس نے کہا : ایسے تو ہمارے ہاں بلخ کے کتے بھی کرتے ہیں، جب ملے کھا لیتے ہیں اور جب نہ ملے تو صبر کر لیتے ہیں۔ یہ تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ میں نے پوچھا: تو پھر تمہارے ہاں زہد کی حقیقت کیا ہے ؟ وہ کہنے لگا: جب ہمیں نہ ملے تو پھر بھی حمد وشکر کریں اور جب ملے تو دوسروں پر ایثار کر دیں، یہ ہے زہد کی حقیقت۔ حضرت امام شافعی کا فرمان ہے کہ تین کام سب سے مشکل ہیں: تنگدستی کے باوجود سخاوت کرنا، تنہائی اور خلوت میں بھی تقویٰ اختیار کرکے گناہ سے بچنا اور ایسے شخص کے سامنے حق بات کہنا جس سے اُمیدیں بھی وابستہ ہوں اور اس سے خوف بھی لاحق ہو۔ آپہمیشہ اپنے ساتھ لاٹھی رکھتے تھے ۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت!آپ اتنے بوڑھے تو نہیں ہیں کہ لاٹھی کے سہارے کی ضرورت پڑے؟ فرمایا کہ میں(آخرت کا) مسافر ہوں اور مسافر ہمیشہ اپنے ساتھ لاٹھی رکھتا ہے۔اندلس کے اموی خلیفہ عبدالرحمن الناصر کے آخردور میں ایک مرتبہ شدید قحط سالی ہوگئی ۔ قرطبہ کے قاضی منذربن سعد نے لوگوں کو نماز استسقا پڑھنے کی ترغیب دی۔ یہ بہت بڑے عالم اور بے مثال خطیب تھے ۔ لوگ مقررہ وقت پر ایک کھلے میدان میں جمع ہوگئے۔ خلیفہ الناصر لوگوں سے خطاب کرنے کیلئے منبر پر بیٹھ گئے ۔ خلاف معمول منذر بن سعید نہ پہنچے ۔ پھر وہ انتہائی عاجزی وانکساری سے چلتے ہوئے اس میدان میں حاضر ہوئے۔ لوگوں سے مخاطب ہونے کیلئے کھڑے ہوئے ۔ السلام علیکم کہنے کے بعد کافی دیر تک کچھ نہ بول سکے ۔ حالانکہ یہ ان کی عادت نہیں تھی ۔ لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھا کہ کیا ماجرا ہے ؟ پھر انہوں نے کلام شروع کیا اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر رحمت کو واجب کرلیا ہے ۔ اپنے رب سے بخشش مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ ان کی باتیں سن کر لوگوں پر رقت طاری ہوگئی۔ پھر سب نے مل کر انتہائی عاجزی وانکساری سے دعا کی ۔ اسی روز غروب آفتاب سے پہلے ہی موسلادھار بارش برسنے لگی ۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں