2 320

آذر بائیجان اور آرمینیا کی جنگ’ مسئلہ کیا ہے

یہ اُمید کہ روس کی ثالثی سے آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین ہونے والی جنگ بندی دیرپا ثابت ہوگی، گزشتہ اتوار کو اس وقت ہوا ہوگئی جب دونوں ممالک نے ایک دوجے پر اپنے شہری مراکز پر بم باری کا الزام دھر دیا۔ قیدیوں کے تبادلے اور نعشوں کی واپسی کے واسطے دو ہفتوں کیلئے ہونے والا یہ معاہدہ روس میں مسلسل مذاکرات کے ادوار کے باعث ممکن ہو سکا۔ یہ جنگ ناگورنو کارا باخ کے متنازع علاقہ کے باعث چھڑی، سو ہمیں اس متنازعہ علاقے کے مسئلے کو پوری طرح سمجھنے کیلئے تاریخ، جغرافیہ اور خطے کے بدلتے حالات کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا ہوگی۔ ہمیں ان پالیسیوں پر بھی روشنی ڈالنا ہوگی جو یہ علاقائی ریاستیں اس تنازعے سے نمٹنے کیلئے اپناتی ہیں اور یہ بھی دیکھنا ہوگا وہ کسی طور اس کے نتائج پر اثر انداز ہونے کیلئے سرگرداں رہتی ہیں۔ ناگورنو کاراباخ ایک متنازعہ خطہ ہے اور اس میں ملحقہ سات اضلاع بھی شامل ہیں۔ یہ پورا علاقہ فی الوقت ارتساخ کی ایک خودساختہ ریاست کے زیرانتظام ہے البتہ عالمی سطح یہ علاقہ جات آذربائیجان کا ہی حصے مانے جاتے ہیں۔ ناگورنا کالاباخ جنوبی کاکسس کا ایسا پہاڑی علاقہ ہے جو زمینی طور پر چاروں اور سے بند ہے۔ یہاں عوام کی اکثریت آرمینی ہے البتہ یہ آذربائیجان کے سرحدی حدود میں واقع ہے۔ اس خطے نے1994 سے آرمینیا کی حمایت کیساتھ ایک خودمختار ریاست ہونے کا دعوہ کیا تھا۔ اس علاقے کی ملکیت کے حوالے سے دونوں پڑوسی ممالک میں تنازعات کی تاریخ پرانی ہے اور موجودہ تنازعے کے تانے بانے بھی بیسیوں صدی کے آغاز میں جا اٹکتے ہیں۔ 1920 میں آذری افواج نے ناگورنو کاراباخ کے علاقے پر بزور بازو، عسکری بنیادوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر جب یہ آپریشن چل ہی رہا تھا تو سوویت افواج نے آذربائیجان کو ہی اپنے قبضے میں لے لیا اس کے بعد اگلے ہی سال ان افواج نے آرمینیا کے بھی ایک بڑے حصے کو اپنے قبضے میں لیکر اس کی یہ اُمید خاک میں ملا دی کہ انہیں مسلمان آذربائیجان کی نسبت عیسائی ہونے کے ناطے کچھ رعایت دی جائے گی۔ ان دونوں ممالک پر قبضے کے بعد ناگورنا کالاباخ کا مسئلہ کئی دہائیوں تک سرد خانے میں پڑا رہا اور اس پر کسی فریق کی جانب سے زیادہ توجہ نہ دی گئی۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد آذری افواج کو اس خطے سے باہر دھکیل دیا گیا، صورتحال اب تک ویسی ہی ہے۔ ترکی آذربائیجان کا ہمیشہ سے ہی سب سے قریبی حلیف رہا ہے۔ اس نے سفارتی مدد کیساتھ ساتھ عسکری امداد سے بھی اپنے آذری بھائیوں کے بازو مضبوط کئے ہیں۔ اس حمایت اور مدد کے پیچھے اس قوم پرست ایجنڈے کو مستحکم کرنے کا مقصد کارفرما ہے جس کے اردوان سب سے بڑے پرچارک ہیں۔ ان کا یہ ایجنڈا ترکی کی مشرق وسطیٰ میں پوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے ہے۔اب اگر ایران کی بات کی جائے تو قدرتی طور پر تو یہی خیال آتا ہے کہ وہ شیعہ اکثریت کے حامل ملک آذربائیجان کی ہی حمایت کرے گا کہ اس کے مدمقابل آرمینیا کی ایک عیسائی ریاست کھڑی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ ایران ترکی کے عزائم پر کچھ خاص خوش نہیں اور اس میں آذربائیجان کی حمایت کیلئے کچھ زیادہ جوش وخروش اس لئے بھی نہیں پایا جاتا کہ ایران کے اپنے اندر تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ آذری آباد ہیں جو حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں۔ انہیں ایرانیوں کی جانب سے اپنی زبان اور شناخت کی بے توقیری کے حوالے سے سنگین شکایات ہیں۔ ان کی قوم پرستی کے جذبات کو اپنے ہم وطنوں کیساتھ تعلق اور ترقی کی جانب سے میڈیا کورج نے اور بھی جلابخشی ہے۔ دوسری جانب تاریخی وجوہات کی بنا پر روس بھی اس خطے میں خاص دلچسپی کا حامل ہے۔ وہ آرمینیا اور آذربائیجان کو تاریخی حوالے سے اپنے زیراثر سمجھتا ہے۔ اگرچہ روس کی جانب سے اس تنازعے میں آرمینیا کی جانب زیادہ جھکاؤ دیکھنے میں آیا ہے البتہ وہ اپنے ترتیب کردہ منصوبوں کے مطابق اس تنازعے میں کسی ایک فریق کی فتح کو بھی ہضم نہیں کر سکتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ روس بھی ایران کی طرح اس تنازعے کے حوالے سے خطے میں سٹیٹس کو کا حامی ہے۔اب اگر بات کر لی جائے پاکستان کی تو اس نے آذربائیجان کے معرض وجود میں آنے سے ہی ہمیشہ اپنے اس برادر اسلامی ملک سے نہایت قریبی اور خوشگوار تعلقات استوارکھے ہیں۔ ہم آرمینیا کیساتھ اس کے تنازعے میں بھی اسی کے دعوے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس حمایت کے پیچھے بلاشبہ ہمارے ترکی کیساتھ تعلقات بھی ایک اہم وجہ ہے۔ پاکستان نے آذربائیجان کیساتھ اپنے تعلقات کی بدولت اب تک آرمینیا کو سفارتی طور پر قبول تک نہیںکیا۔ ناگورنو کارا باخ کا تنازعہ بھی آج کی دنیا کے کئی دیگر تنازعات کی مانند خاصا پیچیدہ اور کثیرالجہت نوعیت کا حامل ہے۔ اس کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں، خطے کے ممالک کی صرف اپنے مفاد اور انا کی تسکین کی خاطر بنائی جانے والی پالیسیاں تنازعات کو مزید گمبھیر کر دیتی ہیں اور یہ روش مسائل کے ایک پرامن حل کی راہ میں رخنے پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
(بشکریہ پاکستان آبزرور، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام