p613 164

مشرقیات

ایک مرتبہ حضرت منذر نے حضرت ربیع سے کہا جناب ہم اتنی دیر آپ کے پاس بیٹھے آپ کی قیمتی باتوں اور دلپذیر نصیحتوںسے فیضیاب ہوئے ۔ لیکن آپ نے اپنی گفتگو کے دوران کوئی شعر نہیں پڑھا حالانکہ آپ کے ہم عصر بطور استدلال گفتگو کے دوران شعر پڑھتے ہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ شیخ نے فرمایا ، جو بھی اس دنیا میں کہا جاتا ہے اسے فوراً لکھ لیا جاتا ہے اور وہ قیامت کے دن پڑھ کر سنایا جائیگا میں نہیں چاہتا کہ میر ے نامہ اعمال میں کوئی شعر لکھا جائے اور قیامت کے دن وہ مجھے پڑھ کر سنایا جائے ۔ پھر فرمایا سنو! اپنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔وہ پردہ غیب میں ہر دم تمہاری منتظر ہے ۔ حضرت ہلال بیان کرتے ہیں کہ جب شیخ ربیع نے بات ختم کی ادھر ظہر کی اذان ہونے لگی بیٹے سے کہا آئو چلیں اللہ کا بلاو ا آگیا ہے۔ حضرت منذر نے کہا : جناب ابویزید آپ معذور ہیں اللہ کی طرف سے آپ کو رخصت ہے ۔ آپ نماز گھر میں ہی پڑھ لیتے۔ فرمایا : آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ لیکن میں نے موذن کو یہ کہتے ہوئے سنا، آئو کامیابی کی طرف دوڑو کامرانی کی طرف جو شخص کامیابی وکامرانی کی طرف بلائے اس کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے جانا چاہیے۔ خواہ گھٹنوں کے بل چل کر کیوں نہ جانا پڑے۔
حضرت نظام الدین اولیا نے سید احمد بہار کے پاس حضرت امیر خسرو کو بھیجا تھا۔ سیداحمد بہار حسب معمول دیوار اٹھانے میں مصروف تھے۔خسرو کو دیکھتے ہی آپ نے اپنا کام روک دیا اور بے اختیار فرمانے لگے۔”خسرو! تمہارے شیخ کیسے ہیں؟”حضرت امیر خسرو نے پیرومرشد کی خیریت بیان کی اور وہ خوان پیش کر دیا جو سرخ کپڑے سے ڈھکا ہوتا تھا۔ سید احمد بہار نے ایک نظر اس خوان کو دیکھا اور جیسے ہی سرخ کپڑے پر آپ کی نگاہ پڑی چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا۔ حضرت امیر خسرونے اس تبدیلی کو شدت سے محسوس کیاپھر ایک عجیب سے لہجے میں حضرت امیر خسرو کو مخاطب کر کے فرمانے لگے۔ تمہارے شیخ بھی خوب ہیں۔ جب کسی کو تاج پہناتے ہیں تو اپنے ہاتھ سے پہناتے ہیں اور جب جنازہ اٹھانے کا وقت آتا ہے تو ہم سے کہتے ہیں ۔۔ مگر کیا کریں ؟ ان کا حکم تو ماننا ہی پڑیگا کہ وہ محبوب الٰہی ہیں۔اس کے بعد سید احمد بہار نے مغرب کی نماز ادا کی۔یکایک خسرو نے دیکھا کہ سید احمد بہار کے چہرے پرجلال کا رنگ اُبھر آیا ۔پھر سید کھڑے ہوئے ۔ سامنے رکھے ہوئے خوان کا کپڑا ہٹایا اور تربوز اُٹھالیا۔ پھر سید احمد کے دونوں ہاتھ فضا میں بلند ہوئے اور آپ نے تربوز اُٹھا کر دیوار پر مار دیا۔ حضرت امیر خسرو نے سنا۔ سید احمد بہار انتہائی غضب کے عالم میں فرما رہے تھے۔ ”برسرتغلق ”(تغلق کے سر پر )کہنے والے کہتے ہیں کہ اسی وقت شہزادہ محمد تغلق کے تعمیر کردہ محل کی چھت سلطان کے سر پر گرپڑی اور وہ اس کے ملبے میں دب کر ہلاک ہوگیا۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ