3 295

حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے

بڑھک بازی ہماری سیاست کا خاص طرۂ امتیاز ہے، سیاسی رہنمامخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے اکثر ایسی بڑھکیں مارتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے مگر اسے کیا کیا جائے کہ عوام ان کے جھانسے میں آکر ان کی بڑھکوں کو سچ مان لیتے ہیں، میر نے کہا تھا ناں کہ
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
ان کی آنکھوں کی نیم بازی سے
تو یہ سیاسی رہنماء بھی ایک دوسرے سے ہی سیکھتے ہوئے ایسے ایسے بیانئے ایجاد کر لیتے ہیں کہ یقین کرنا ہی پڑجاتا ہے مگر بعد میں وہی نعرے اور بیانات ان کیلئے ”باعث شرمندگی” بن کر ان کا پیچھا کرتے رہتے ہیں، اس نعرے بازی اوربڑھک بازی کی ابتداء کب ہوئی، اس بارے میں شاید کوئی سیاسی محقق ہی زیادہ بہتر طور پر بتا سکے،تاہم اگر گزشتہ دس بارہ برس کے سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایسے ایسے دعوے ضروریاد آجاتے ہیں جو آج بھی ہمارے سیاسی اُفق پر ڈرائونے خواب کی طرح اپنے منحوس سائے کئے ہوئے ہیں، مثلاً لیگ(ن) کے ایک اہم رہنماء شہباز شریف کی وہ بڑھکیں اور بلندبانگ دعوے اب بھی سماعتوں کے ساتھ ٹکراتے رہتے ہیں جو انہوں نے اپنے سیاسی حریف آصف علی زرداری کے حوالے سے لگائے تھے اور ان کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹتے اور ان کا ”پیٹ” پھاڑ کر لوٹی گئی قومی دولت باہر نکالنے کے دعوے کئے تھے، مگر بعد میں یہ سارے دعوے سراب ثابت ہوئے، اسی طرح وہ جو کراچی میں ایک الطاف بھائی ہوا کرتے تھے، ان کیخلاف تحریک انصاف کے دعوے کیا ہوئے؟ حالانکہ فیصل واؤڈا نے انگلستان تک جا کر ان کا پیچھا کیا تھا اور تحریک کے سربراہ نے بھی لندن میں اہم برطانوی عہدیداروں تک سے ملاقاتیں کر کے الطاف بھائی کو ”کیفرکردار” تک پہنچانے کی کوششیں کی تھیں مگر جب ضرورت پڑی تو اسی الطاف بھائی کی باقیات کیساتھ ”شراکت داری” پر مجبور ہونا پڑا، اور حکومت میں آنے سے پہلے تحریک انصاف کے کنٹینرز پر تقریروں میں جو دعوے بڑھکوں کی شکل میں سننے کو مل رہی تھیں کہ خان آئے گا اور اربوں ڈالر کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گا، کچھ آئی ایم ایف کے منہ پر دے مارے گا اور باقی سے ملک میں ترقی لا کر پاکستان کو خوشحالی کی جانب گامزن کرے گا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، نہ لوٹی ہوئی دولت واپس آئی، نہ لوگوں کو روزگار ملا، بلکہ آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہونے کیلئے ایسی شرائط بھی تسلیم کرنا پڑ گئیں کہ لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔
دیدہ وروں کے شہرمیں ہر ایک پستہ قد
پنجوں کے بل کھڑا ہے کہ اونچا دکھائی دے
ماضی میں جھانکنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ وہ جو سرکار والا کا لگ بھگ ہر وزیر، مشیر اور معاون کچھ مدت سے میاں نوازشریف کو گریبان سے پکڑ کر واپس لانے اور حاکم اعلیٰ اپنی تھوڑی پر ہاتھ پھیر کر میاں نوازشریف کو دھمکیاں دیتا دکھائی دیتا تھا کہ نواز شریف تم واپس آؤ میں تمہارے ساتھ دیکھ لوں گا یعنی تمہارا وہ حشر کروں گا کہ تمہاری اگلی پچھلی نسلیں بھی یاد کریں گی۔ یہ گویا ایک طرح سے شہباز شریف کی اسی تڑی کی یاد تھی جس کا تذکرہ اوپر کی سطور میں آچکا ہے مگر اب جبکہ برطانوی وزارت خارجہ نے بقول کسے ٹھینگا دکھا دیا ہے یہ کہہ کر کہ پاکستان سے جاری وارنٹ پر نوازشریف کی گرفتاری نہیں ہوسکتی، تو وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ نوازشریف کو گھسیٹ کر لانے کی بات کرنا آسان، عمل مشکل ہے۔ گویا یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ یہ جو ہر دور میں ہر حکمران اپنے مخالفین کے حوالے سے تڑیاں لگاتے ہیں، بڑھکیں مارتے ہیں، ان کا مقصد ماسوائے اپنے ”اندھے، گونگے، بہرے” فالورز کو تسلیاں دینے بلکہ طفل تسلیوں سے بہلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا اور انہیں اس بات پر آمادہ کرنا ہوتا ہے کہ پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ، سو عوام ہر دور میں اس قسم کے لطیفوں سے لطف اندوز ہونے پر مجبور کئے جاتے ہیں اور انہیں ایک بہتر مستقبل کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے ہوئے صبر کا دامن تھامے رکھنے کی اُمید پر رکھا جاتا ہے۔ پشتو زبان میں ایک ضرب المثل ہے کہ گڑہ گڑہ کوہ خولہ بہ دے خواگیگی، یعنی گڑ گڑ کرتے رہو، منہ میں مٹھاس کا احساس ہوتا رہے گا۔ گڑ چونکہ قدیم زمانے سے ہی مٹھاس کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور دیہات میں گھانیوں پر گنے کا رس نکال کر پکانے سے گڑ بنانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، اگرچہ بعد میں جدید مشینوں اور کیمیکل کے استعمال سے چینی بھی بنائی گئی مگر جو لوگ گڑ استعمال کرنے کے عادی ہیں وہ اسے اب بھی چینی پر فوقیت دیتے ہیں، اسی لیے گڑ کے حوالے سے ضرب الامثال پشتو زبان میں مستعمل ہیں، سو اسی کلئے کو سامنے رکھتے ہوئے حکمران عوام کے سامنے ایسے دعوے کرتے رہتے ہیں جن کا حاصل وصول تو کچھ نہیں ہوتا، بس منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے اس قسم کی بڑھک بازی ضروری ہوتی ہے حالانکہ خود انہیں بھی اس کی اصل حقیقت معلوم ہوتی ہے یعنی
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام