استعمال شدہ کپڑوں

چلی میں استعمال شدہ کپڑوں کے پہاڑ

ویب ڈیسک :کرسمس کے سویٹر اور سکی بوٹس سمیت ضائع شدہ کپڑوں کا پہاڑ چلی کے اتاکاما علاقے میں ایک عجیب منظر پیش کرتاہے، جو دنیا کا خشک ترین صحرا ہے اور اب تیزی سے فیشن کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی کا شکار ہو رہا ہے۔

یہ کپڑوں کی صنعت میں بے تحاشا صارفیت کا سماجی اثر ہے جس کی وجہ سے کارخانوں میں چائلڈ لیبر تضحیک آمیز اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن اس کے ماحول پر تباہ کن اثرات بارے کم ہی بات کی جا تی ہے ۔چلی طویل عرصے سے سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کا مرکز رہا ہے جو چین یا بنگلہ دیش میں بنتے ہیںاور چلی پہنچنے سے پہلے یورپ، ایشیا یا امریکہ سے گزرتے ہیں جہاں انہیں لاطینی امریکہ کے آس پاس دوبارہ فروخت کیا جاتا ہے۔ہر سال تقریبا 59,000 ٹن ملبوسات شمالی چلی کی ایکوک بندرگاہ پر پہنچتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  سعودی وفد پاکستان پہنچ گیا،سرمایہ کاری معاہدوں پر دستخط کا امکان
مزید پڑھیں:  اسرائیل کا رفح پر حملہ،بچوں سمیت 26فلسطینی شہید

جو زیادہ تر دیگر لاطینی امریکی ممالک کو اسمگل کیے جاتے ہیں لیکن کم از کم 39,000 ٹن جو فروخت نہیں کیا جا سکتا صحرا میں کوڑے کے ڈھیروں میں ضم ہو جاتا ہے۔