p613 331

نیب کے وقار کا سوال

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ایک مرتبہ پھر قومی احتساب بیورو (نیب)کی کارکردگی پر سوالات اُٹھاتے ہوئے چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ نیب میں موجود افسران بڑے بڑے فراڈ کررہے ہیں اور چیئرمین نیب خاموش ہیں۔ انہوں نے ریمارکس دئیے کہ نیب افسران کو ادارہ چلانا ہی نہیںآتا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیب کا ادارہ کیا کررہا ہے صرف تماشا بنایا ہواہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کا دوسرے ادارے کے حوالے سے ریمارکس پر تو تبصرہ مناسب نہیں ہوگا۔ سوائے اس کے کہ نیب کے حوالے سے صرف سیاستدانوں اور رائے عامہ ہی کو شبہات نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ اور دیگر عدالتیں بھی وقتاً فوقتاً عدم اطمیان کا اظہار کرتی رہتی ہیں جس پر نیب کو بطور ادارہ غور کرنا چاہئے اور اس کی روشنی میں اصلاح احوال کیلئے ضروری اقدامات کرکے ادارے کی ساکھ اور وقار کا تحفظ یقینی بنانا چاہئے۔
رسمی کارروائی
تھانہ حیات آباد پولیس نے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں مظاہرین کو ہسپتال انتظامیہ کیخلاف اشتعال پیدا کرنے اور انتظامیہ کو زدوکو ب کرنے کے الزام پرخاتون ایم پی اے سمیت دوارکان اسمبلی کیخلاف ڈائریکٹر حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی مدعیت میں جو ایف آئی آر درج کی ہے اسے سردخانے کی نذر کرنے کی بجائے منطقی انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری پوری کی جائے تو بہتر ہوگا۔ پولیس نے جلدبازی میں نہیں بلکہ واقعہ کی تین دن کی انکوائری کے کارسرکار میں مداخلت کرنے اورعملے کو زد وکو ب کرنے کے مقدمات درج کر لئے ہیں، جس کے بعد اس حوالے سے مزید کسی سقم اور سہو کی گنجائش نہیں، اگلے قدم میں قانونی ضرورت پوری کرنا اب متعلقین کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح کے مقدمات عموماً درج ہوتے ہیں اور ان کو پرکاہ برابر کی حیثیت نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے پولیس کارروائی بے وقعت ہوتی گئی اور پولیس بھی رسمی کارروائی پوری کرتے کرتے تنگ آچکی ہے۔ ایسے میں اس طرح کے واقعات اور مقدمات کے حوالے سے پولیس کی بددلی فطری امر ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پولیس کی سرپرستی کرے اور پولیس کو بغیر کسی دباؤ کے اس کیس کو آگے بڑھانے اور عدالت میں اسے ثابت کرکے ملزموں کو سزا دلوانے کو یقینی بنانے کی سنجیدہ سعی کرنی چاہئے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔
جیل میں اسلحہ بردار قیدیوں کی سیلفی
سنٹرل جیل پشاور میں قیدیوں کی اسلحہ سمیت سیلفی کئی سوالات کو جنم دینے کا باعث امر ہے۔ انتہائی خطرناک نوعیت کے قیدیوں کے پاس موبائل فون اور سب سے بڑھ کر جیل کے اندر اسلحہ سمجھ سے بالاتر امر ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے حال ہی میںجیل کا دورہ کرکے اصلاح احوال کی ہدایت کی تھی، صوبے کے انتظامی سربراہ کے دورے کے موقع پر بھی یہ اسلحہ موجود تھا یا پھر بعد میں پہنچایا گیا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ ویڈیو ہی درست نہ ہو لیکن بہرحال معاملہ سنگین اور قابل تحقیقات ہے۔ جیل میں اسلحہ کیسے پہنچا اور قیدی اسلحہ و فون کہاں چھپا کر رکھتے ہیں، ان سوالوں کا جواب تلاش کیا جائے تو جیل اہلکاروں کی ملی بھگت ضرور سامنے آئے گی۔ جیل میں پیسہ ہو تو سب کچھ مل جاتا ہے کی اصطلاح اس تصویری ثبوت نے پوری کردی۔ جتنا جلد ہو صوبے کے تمام جیلوںکا اچانک اور تفصیلی معائنہ کیا جائے۔ اسلحہ، منشیات اور فون برآمد کئے جائیں اور جیلوں میں قوانین کے نفاذ اور قانون کے مطابق قیدیوں سے سلوک کو یقینی بنایا جائے، جس کی قیدیوں کو اجازت نہیں اس کی ممانعت اور قانونی طور پر ان کو جو حقوق حاصل ہیں ان کو مہیا کئے جائیں اور آئندہ اس طرح کے واقعات کا مکمل طور پر تدارک کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
کورونا ویکسین لگانے کے ناکام انتظامات
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں قائم کورونا ویکسی نیشن سنٹر میں شدید بد انتظامی،ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے آگے بڑھنے اورایس او پیز کی دھجیاں بکھیرنے کی روک تھام میں ناکامی پر متعلقہ منتظمین کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ چترال کے دور دراز علاقوں سے طویل مسافت طے کرکے آنے والوں کی ویکسی نیشن نہ ہونے سے ان میں بے چینی اور دھکم پیل فطری امر ہے۔ اس سے ان انتظامات کا بھی عقدہ کھلتا ہے جو حکام نے روا رکھا ہوگا۔ جہاں کورونا ویکسی نیشن لگانے کے منتظر افراد ہی ایس او پیز کی دھجیاں اُڑا دیں اور حکام ان سے حفاظتی تدابیر کی پابندی نہ کروا سکیں وہاں یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں کورونا نہ پھیلے، یہی وجہ ہوگی کہ چترال میں کورونا کے کیسز غیر متوقع طور پر زیادہ سامنے آئے۔ وزیرصحت کو صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے اور غفلت کے مرتکب افراد کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے۔توقع کی جانی چاہئے کہ کم از کم محکمہ صحت اور صحت عامہ سے متعلق اداروں میں کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کو پوری طرح یقینی بنایا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟