tanveer ahmnad

دودھ کا دودھ پانی کا پانی

آج زندگی اس ڈگر پر لے آئی ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن اگر نہیں ہے تو وقت نہیں ہے، پہلے لوگوں کے پاس وقت ہی وقت ہوا کرتا تھا۔اب جسے دیکھئے تیزی سے بھاگ رہا ہے شاید ہم عدیم الفرصتی کے عذاب میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب پشاور میں جعلی حکیم ایک بہت بڑا مجمع لگا کر دوائیاں بیچا کرتے تھے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد حکیم کے چاروں طرف جمع ہو جاتی وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے، چوک یادگار میں بھی اس طرح کا ایک مجمع لگتا۔ اس زمانے میں ٹریفک برائے نام ہوا کرتی تھی، لوگوں کے پاس شاید وقت بھی بہت تھا، پولیس کے سپاہی بھی مفت کی روٹیاں توڑا کرتے سپاہی کے پاس ایک موٹا سا ڈنڈا ہوتا لیکن اس وقت پولیس کا بڑا رعب ہوتا، جب سے حالات بگڑے ہیں پولیس والوں کی جان پر بنی ہوئی ہے ۔ سپاہی بھی حکیم کی باتیں سننے کیلئے ہجوم کا حصہ بن جاتے۔ کسی کو یہ خیال بھی نہیں تھا کہ یہ جعلی حکیم لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے اس کے پاس حکمت کی کوئی سند بھی نہیں اور پھر بھی یہ ڈنکے کی چوٹ پر مجمع لگا کر کھڑا ہے اور کسی علاقہ غیر میں بھی نہیں بلکہ صوبے کے صدر مقام پشاور میں لوگوں کو لوٹ رہا ہے۔ وہ کوئی عجیب و غریب سی کہانی شروع کردیتا’ لوگ بڑی محویت سے وہ کہانی سنتے۔ اس کہانی کی ایک خاص بات یہ ہوتی کہ وہ ہر تھوڑی دیر کے بعد لوگوں کو قہقہہ لگانے پر مجبور کردیتی۔ لوگ حکیم کا مزاحیہ انداز پسند کرتے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ کبھی کبھی یہ جعلی حکیم پنجاب سے بھی تشریف لاتے ایک عدد لنڈے کی پتلون پہن کر وہ بڑی صاف ستھری اُردو میں لوگوں کو مزے مزے کے قصے سناتے۔ ساتھ پشتو ترجمے کیلئے اس قسم کے غیرصوبائی حکیم کیساتھ ایک مقامی شخص بھی ہوتا وہ دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے لیکن وہ ترجمان پشتو زبان کی وجہ سے یہ تاثر دیتا کہ اس کی ہمدردیاں لوگوں کیساتھ ہیں اور وہ بہ امر مجبوری حکیم کیساتھ کام کررہاہے۔ حکیم جو جملہ بھی بولتا ترجمان اس کا ترجمہ ساتھ ساتھ پشتو میں کرتا جاتا ‘درمیان میں وہ اس بات کا خیال رکھتا کہ لوگوں کو ہنسایا جائے۔ اگر حکیم کسی دوائی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا کہ اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ مجھے غرق کرے، تو ترجمان ترجمہ کرتے ہوئے کہتا کہ اگر یہ جھوٹ بولے تو اللہ اسے غرق کرے۔ اس پر لوگ دل کھول کر ہنستے، جب حکیم کو یقین ہوجاتا کہ لوگ پوری طرح اس کے جال میں پھنس چکے ہیں تو پھر وہ دوائیوں کی طرف آتا۔ جب وہ دوائیوں کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملارہا ہوتا تو اسے یہ ڈر بھی ہوتا کہ دوائیوں کے ذکر پر لوگ جانا نہ شروع کردیں اسلئے وہ سانپ کی پٹاری کی طرف دیکھ کر ہر تھوڑی دیر کے بعد کہتا کہ ابھی آپ کے سامنے سانپ اور نیولے کی لڑائی ہو گی جگر تھام کے بیٹھیے ایسا مقابلہ آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ اگر کچھ لوگ جانا بھی چاہتے تو نہیں جاسکتے تھے کیونکہ وہ سانپ اور نیولے کی لڑائی دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم نے کبھی سانپ اور نیولے کی لڑائی نہیں دیکھی لیکن یہ ضرور دیکھا کہ لوگ آخر میں دوائی کی شیشیاں خرید رہے ہوتے کوئی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کرتا کہ یہ جعلی حکیم کہاں سے آیا ہے کیا اس طرح مجمع لگا کر دوائیاںبیچنا قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں ہے۔ یہ حکیم مخلوق خدا کو سرعام دھوکہ دیتے لیکن انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ جعلی حکیموں کا لگایا ہوا مجمع ہمارے ذہن میں اس لیے آیا کہ ہم نے کچھ دنوں پہلے ایک حکیم کو اسی طرح کا مجمع لگاتے دیکھا، طریقہ واردات وہی پرانا، لوگ ہنس بھی رہے ہیں اور وہ لوگوں کو ان کی بیوقوفیوں پر بری طرح لتاڑ رہا ہے ۔ سادہ لوح دیہاتی اسے کوئی مستند حکیم سمجھتے ہوئے بڑے احترام سے اس کی فضولیات سن رہے تھے، یقین کیجیے ہمیں اس حکیم سے زیادہ غصہ ان لوگوں پر آیا جو اس قسم کی بیہودگیوں کی اجازت دیتے ہیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی جنگل میں یہ سب کچھ ہو رہا ہو۔ہمارا ذہن قصہ خوانی کے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے جعلی حکیموں کی طرف چلا گیا، یہ فٹ پاتھ پر بیٹھے لوگوں کو اشارے کرکے اپنے پاس بلاتے ہیں جب سادہ لوح معصوم دیہاتی ان کے پاس آتا ہے تو اس کیساتھ ہاتھ ملا کر کہتے ہیں کہ” کلی والا پخیر راغلے” وہ بیچارا پشتو کی محبت میں اسے اپنا سمجھتا ہے۔ اس کے بعد اسے کہتے ہیں کہ آپ کی آنکھوں کی رنگت تھوڑی سی زردی مائل ہے چہرے کی رنگت میں بھی فرق ہے پھر اسے ایک آدھ ایسی بیماری کا بتایا جاتا ہے جو بہت عام ہوتی ہے۔ یہ باتیں کرتے کرتے یہ نوسر باز جعلی حکیم اپنے شکار کے چہرے کا مشاہدہ بھی بغور کرتے رہتے ہیں، اس کے بعد اسے کہتے ہیں گھبرا نے والی کوئی بات نہیں ایسی کوئی بیماری نہیں جس کا علاج نہ ہو ہم آپ کو دوائی دیتے ہیں انشاء اللہ افاقہ ہوگا۔ یہ سب کچھ کابلی پولیس سٹیشن کی ناک کے نیچے ہورہا ہے اگر کوئی تحقیق کا شوق رکھتا ہو تو ان جعلی حکیموں کو قصہ خوانی میں لاہوری حلوائی اور شیخ پنساری کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھا دیکھ سکتا ہے اور اگر مزید جاننے کی خواہش ہو تو ان کے پاس دو چار منٹ بیٹھ جائیے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار