logo 78

مشرقیات

ابو نعیم نے ” حلیہ ” میںحضرت ابن مسعود سے روایت کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ کعب نے حضرت عمر سے مخاطب ہو کر کہا : اے امیر المومنین ! کیا میں آپ کوایک نہایت عجیب قصہ نہ سنائوں ، جو میں نے انبیا ء کے حالات کی کتاب میں پڑھا ہے ۔ وہ قصہ یہ ہے کہ ایک بار حضرت سلیمان بن دائود کے پاس ایک الو (ہامہ ) آیا اور آکر کہا : السلام علیک یا نبی اللہ ! آپ نے جواب دیا : ”وعلیک السلام یا ھامتہ ” پھر حضرت سلیمان نے اس سے پوچھا کہ اچھا مجھے بتاکہ دانے کیوں نہیں کھاتا؟ اس نے جواب دیا کہ حضرت آدم کو اس وجہ سے جنت سے نکالا گیا پوچھا کہ اچھاپانی کیوں نہیں پیتا ؟ الو نے کہا کہ اس میں قوم نوح ڈوب کر ہلاک ہوئی تھی ، اس لئے میں پانی نہیں پیتا ۔ حضرت سلیمان نے پوچھا کہ تونے آبادی کو کیوں خیر باد کہہ دیا اور ویرانے میں رہنا تونے کیوں پسند کیا ؟ اس نے کہا کہ ویرانہ رب تعالیٰ کی میراث ہے ، میں رب تعالیٰ کی میراث میں رہتا ہوں ۔ حضرت سلیمان نے پوچھا کہ جب تو کسی ویرانے میں بیٹھتا ہے تو کیا بولتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں یہ کہتا ہوں : وہ لوگ کیا ہوئے جو اس جگہ مزے سے رہتے تھے ۔ حضرت سلیمان نے پوچھا کہ جب تو آباد ی سے گزرتا ہے تو کیا کہتا ہے ؟ الو نے کہا کہ اس وقت میں یہ کہتا ہوں ”ہلاکت ہو بنی آدم پر ان کو نیند کیسے آجاتی ہے ، حالانکہ مصائب کے طوفان ان کے سامنے ہیں ”۔ حضرت سلیمان نے کہا کہ تو دن میں کیوں نہیں نکلتا ؟ کہا کہ انسانوں کے ایک دوسرے پر ظلم کرنے کی وجہ سے میں دن میں نہیں نکلتا ۔ حضرت سلیمان نے کہا اچھا مجھے بتا کہ تو برابر بولتا رہتا ہے ، اس میں تیرا کیا پیغام ہے ؟ الو نے کہا میرا پیغام یہ ہوتا ہے ”اے غافل لوگو! زادرراہ اور اپنے سفر آخرت کیلئے تیار ہو جائو ۔ نور پیدا کرنے والی ذات پاک ہے ۔ ” اس وقت حضرت سلیمان نے فرمایا کہ پرندوں میں الو سے زیادہ انسانوں کا خیرخواہ اور ہمدرد کوئی نہیں ہے ۔٭حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ سابقہ امتوں کے ایک شخص نے 99قتل کئے تھے ، پھر اس کے دل میں خوف آیا اور اس نے اپنے برے اعمال سے توبہ کرنے کا ارادہ کر لیا اس کو ایک شخص ملا تو اس نے اس سے بھی پوچھ لیا تو وہ کہنے لگا کہ فلاں بستی میں چلے جائو وہاں نیک لوگ رہتے ہیں ، وہ آپ کی اصلاح کر دیں گے ۔ یہ شخص اس بستی کی طرف روانہ ہوا ، ابھی راستے ہی میں تھا کہ ا س کی موت واقع ہوگئی ، اب جنت کے فرشتے بھی آگئے اور دوزخ کے بھی اور اس مردے کے بارے میں ان میں اختلاف ہوگیا کیوں کہ وہ توبہ کے ارادے سے نکلاتھا۔ رب تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ دیکھو یہ آنے والی بستی کے قریب تھا یا پہلے والی بستی کے قریب تھا ، پیمائش کی گئی تو رب تعالیٰ نے گزشتہ بستی کی مسافت کو زیادہ کردیا اور آنے والی بستی کی مسافت کو کم کردیا ، چنانچہ خدا کی رحمت سے اس کی بخشش ہوگئی ۔ معلوم ہو ا کہ رحمت الہٰی انسان کی مغفرت کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار