3 427

مذاکرات کے نام پر ایک اور مشقِ فضول

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی بھارت نوا ز جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس چوبیس جون کو نئی دہلی میں طلب کی تھی۔کانفرنس میں چودہ افراد کو ملاقات کی دعوت دی گئی تھی جن میں وادی کی وہ چھ جماعتیں بھی شامل ہیں جو ایک اتحاد پیپلزالائنس فار گپکار ڈیکلریشن میں شامل ہیں ۔ان میں نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی ،پیپلز کانفرنس وغیرہ شامل ہیں ۔جموں سے جن شخصیات کو مدعو کیا ہے ان میں غلام نبی آزاد اور پروفیسر بھیم سنگھ شامل تھے ۔اس طرح دعوت ملاقات پانے والوں میں چار سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ،عمر عبداللہ ،غلام نبی آزاد اور محبوبہ مفتی شامل تھے۔ان جماعتوں نے مودی کی کی کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے مشاورت کر نے کے بعد شرکت کا فیصلہ کیا حالانکہ کانفرنس کا کوئی پیشگی ایجنڈا نہیں تھا ۔بھارت میں کشمیری قیادت سے مشاور ت کا یہ عمل پانچ اگست کو دوسال پورے ہونے کے موقع پر کیا گیا ۔یہ وہ عرصہ ہے جس میں بھارت کو کشمیر کی سرزمین پر کسی عملی چیلنج کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا مگر بھارت کو کچھ ہوجانے کا خوف بدستور دامن گیر رہا ۔بھارت نے زور زبردستی اور فوجی جمائو کے ذریعے کشمیر میں امن تو قائم کیا مگر اس امن کی حیثیت پانیوں پر نقش کی سی رہی ۔پانچ اگست کے فیصلے سے بھارت نے اپنے طویل المیعادنوآبادیاتی مقاصد کی طرف ایک اہم چھلانگ تو لگائی مگر اس سے بھارت کے لئے بیرونی مسائل کا ایک پنڈورہ باکس کھل گیا ۔اس فیصلے سے بھارت اپنے دو قریب ترین ہمسایوں میں مزید تنہا اور گھر کر رہ گیا۔چین کے ساتھ مخاصمت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔گلوان وادی اور پنگانگ جھیل اورہماچل پردیش میں بھارت کو فوجی ہزیمت اُٹھانا پڑی جبکہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو اس فیصلے کی واپسی سے مشروط کرکے خطے کی صورت حال کو مزید پیچیدہ بنادیا ۔چین اور پاکستان نے اس نئی صورت حال کے مقابلے کے لئے ایک نئی حکمت عملی پر کام تیز کیا جس کے مقابلے کے لئے بھارت اب دومحاذوں کی جنگی سٹریٹجی اپنانے پر مجبور ہے۔بھارت نے یہ موقف اپنایا تھا کہ پانچ اگست کا فیصلہ ان اجارہ دار سیاسی خاندانوں کے خلاف ہے جنہوں نے ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے نہیں دئیے ۔ان گھرانوں پر بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کئے گئے تھے۔جن عناصر کے خلاف انقلاب برپا کرنے کا دعویٰ کیا گیا اب انہی سے اس انقلاب کو تقویت دینے کے لئے مدد مانگی جانے لگی ۔ نریندرمودی کی کانفرنس میں وزیر داخلہ امیت شاہ ،قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال اور کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا بھی شریک تھے جبکہ دوسری طرف جموں اور وادی کی آٹھ جماعتوں کے چودہ افراد شامل تھے ۔ملاقات میں کشمیری سیاست دانوں نے جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحا ل کرنے کا مطالبہ کیا ۔انہوںنے مطالبہ کیا کہ دفعہ 370اور35Aکو بحال کیا جائے ۔جواب میں نریندر مودی اور امیت شاہ نے ان سیاست دانوں کو اپنے اقدامات کی حمایت کرنے کو کہا ۔دی ہندو اخبار نے مودی کا ایک جملہ رقم کیا کہ ”دلی کی دوری بھی دور ہونی چاہئے اور دلوں کی دوری بھی ” ۔مذاکرات میں کئی نکات زیر بحث آئے ان میں کوئی ایک بھی کشمیر کے مسئلے کی بنیاد سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔پہلا نکتہ نئی حلقہ بندیاں تھا ۔نئی حلقہ بندیاں اس انداز سے کی جا رہی ہیں جس میں ہندو اکثریتی علاقے جموں کی سیٹیں مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر کے برابر کی جانی ہیں ۔دوسرا نکتہ حلقہ بندیوں کے بعد اسمبلی انتخابات تھے جبکہ تیسرا نکتہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی تھا ۔ریاستی حیثیت کس شکل میں بحال ہوتی ہے اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا ۔ابھی تک بھارتی حکومت جموں کو الگ اور وادی کشمیر کو لداخ کے ساتھ ملاکر دو حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔مذاکرات میں سب سے اہم نکتہ آخر میں زیر بحث آیا اور و ہ تھا دفعہ 370کی بحالی ۔اس اہم ترین نکتے کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ مسئلہ بھارتی سپریم کورٹ میں ہونے کی وجہ سے زیر بحث نہیں آسکتا ۔یوں نہایت پرکاری سے کشمیری قیادت کو اصل معاملے پر ٹرخادیا گیا ۔اس رویے نے دلی مذاکرات کو مشق فضول بنا کر رکھ دیا ۔جس کے بعد یہ سوال پیدا ہونا فطری تھا کہ اس فوٹو سیشن کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔یہ مشق ان خبروں کے دوران ہوئی جن میں کہا گیا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے دوحہ میں طالبان کے نمائندوں سے دو مختصر ملاقاتیںکی ہیں۔طالبان سے مذاکرات بھارت کے لئے ایک طعنے کا باعث رہا ہے ۔گزشتہ برس بھی جب ان روابط کی خبریں آئی تھیں تو عمر عبداللہ نے پھبتی کسی تھی کہ اگر طالبان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو کشمیری حریت پسندوں سے مذاکرات کرنے میں کیا حرج ہے ۔اس بار بھی محبوبہ مفتی نے یہی سوال اُٹھایا کہ اگر طالبان سے بات چیت ہو سکتی ہے تو پاکستان اور کشمیریوں سے کیوں نہیں؟۔ اسی داغ کو دھونے اور اعتراض کو دور کرنے کے لئے بھارتی حکومت نے جموں وکشمیر کی اپنی ہی تابع فرمان قیادت کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا۔اب بھارت نواز کشمیری قیادت کا امتحان ہے کہ وہ حسب روایت بھارت کی مطلب براری کے لئے استعمال ہوتی ہے یا ریاست کی وحدت اور کشمیری تشخص کامقدمہ لڑ نے کا مشکل فیصلہ کرتی ہے؟ ۔قدرت نے انہیں تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہونے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار