3 449

ہلکی پھلکی بھوک میں

وسطی پنجاب کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 38سے نون لیگ کے امیدوار طارق سبحانی 56353 ووٹ لے کر تقریباً چھ ہزار ووٹوں سے ہار گئے حکمران جماعت کے احسن سلیم نے 62657ووٹ لئے ۔ نون لیگ کی اس نشست پر شکست حیران کن ہے ۔ ہارنے والے امیدوار کا خاندان 1988ء سے یہ نشست جیتا آیا ہے ۔ تحریک انصاف کے دعوئوں اور نون لیگ کے الزامات دونوں سے ہٹ اس نشست پر ہوئی شکست کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ البتہ ایک حقیقت ہے وہ یہ کہ کامیاب امیدوار نے پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ سرکاری وسائل استعمال ہوئے اور دھڑلے سے ہوئے آپا فردوس عاشق اعوان حکومتی جماعت کے امیدوار کی انتخابی مہم کی نگران اعلیٰ تھیں سیالکوٹ ضلع کی ساری انتظامیہ کلرک سے ڈی سی تک ان کے ا حکامات کی بجا آوری میں مصروف رہے ۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی یہ پہلی کامیابی ہے ۔ قبل ازیں تحرک ا نصاف پارٹی اور نون لیگ جیتی کیوں رہی۔ سابق کامیابیاں اگر جناب نواز شریف کے بیانیہ کی مرہون منت تھیں تو اس شکست کو کیا نام دیا جائے ؟ بنیادی بات یہ ہے کہ حلقہ جاتی سیاست کے جتنے فوری تقاضے ہوتے ہیں وہ سرکاری امیدوار نے پورے کئے دھاندلی کی اکا دکا شکایت سامنے آئی اس پر پولیس اور انتظامیہ نے فوری کارروائی کی البتہ ایک پولنگ اسٹیشن کے انچارج سے جعلی ووٹوں کی برآمدگی سے پیدا ہوئے سوال کا کسی نے تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ جناب نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اس نتیجہ کو شکست تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے سلیکشن قرار دیا ہے ۔
ہمارے محبوب وزیر اعظم نے گزرے مہینوں میں بلاول بھٹو کی اس بات کا بہت مذاق اڑایا تھا کہ ”جب بارش زیادہ ہوتی ہے تو پانی زیادہ آتا ہے ” وزیر اعظم نے ایک خطاب میں آئن سٹائن کی روح کو تڑپنے کاذکر بھی کیا تھا۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں طوفانی بارش سے سیکٹر ای 11 میں جو تباہی ہوئی اس کے بعد سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کی پرانی تقریر کے کلپس خوب وائرل ہوئے ۔ طوفانی بارش سے بدھ کو جڑواں شہروں میں پیدا ہوئی صورتحال اور خصوصاً سیکٹر ای 11 میں ہوئی نے ایک بار پھر سی ڈی اے کی ناقص حکمت عملی صفر کارکردگی اور بارشوں کے پانی کے قدرتی گزر گاہوں کا خیال نہ رکھنے کی حماقت کی سزا شہریوں کو دی۔ گو یہ صرف اسلام آباد کا مسئلہ نہیں پورے ملک میں ہی ایسا ہے بارشوں کے پانی کی صدیوں سے بنی گزر گاہوں پر تعمیرات نے ہمیشہ مسائل پیدا کئے ۔ نئی بستیاں بسائے اور سڑکیں بناتے وقت بنیادی معاملات کو نظر انداز کرنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ترقیاتی اداروں میں سیاسی مداخلت ہمیشہ عروج پر رہتی ہے اس لئے ہر دور میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب سزاوں سے بچ نکلتے ہیں ۔ سیکٹر ای 11میں گزشتہ روز بارش کے پانی سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی۔ دو اموات بھی ہوئیں درجنوں گاڑیاں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں۔ عمارتوں اور گھروں کی بیسمنٹوں میں پانی بھر گیا۔ اب توقع ہی کی جا سکتی ہے کہ سی ڈی اے بدھ کو پیدا ہوئی صورتحال سے مستقبل میں شہریوں کومحفوظ رکھنے کے لئے اولاً خصوصی اقدامات اٹھائے ثانیاً یہ کہ سیلابی ریلوں کی قدرتی گزر گاہوں کو بحال کروانے کے لئے منصوبہ محض کاغذوں میں نہ بنائے بلکہ اس پر عمل بھی ہو۔
جناب وزیر اعظم نے دو تین ہفتے قبل ایک انٹرویو میں خواتین سے جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ذمہ دار خواتین کے لباس کو قرار دیا تھا اب انہوں نے ایک امریکی ٹی وی کے پروگرام میں انٹرویو کے دوران پچھلے موقف کے برعکس کہا کہ خواتین کا لباس نہیں ریپ کرنے والا ذمہ دار ہے ۔ وزیر اعظم کو قبل ازیں دیئے گئے انٹرویو میں بھی یہی بات کرنی چاہئے تھی بلاوجہ انہوں نے غیریقینی بات کہہ کر تماشا بنوائے رکھا۔ جنسی تشدد کے خاتمے کے لئے ہمارے یہاں جن اقدامات کی ضرورت ہے بد قسمتی سے ان اقدامات کو ہی گالی بنا دیا گیاہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رہنے کے لئے تعلیم دی جائے تو ہمارا یہاں ایک طبقہ اسے دینی فہم کے خلاف سازش اور بے راہ روی کی ترویج کا نام دے کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے پھر جب جنسی تشدد کا کوئی گھنائونا واقعہ سامنے آتا ہے تو من گھڑت و سستی تاویلات پیش کرنے لگتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اب اس سارے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ زیادتی کے واقعات کے کم یا زیادہ ہونے کے موازنے کی بجائے ہمیں اپنے ہاں اصلاح احوال پر توجہ دینا ہو گی۔
اب چلتے چلتے یہ خوشخبری کہ وزیر اعظم عمران خان نے سندھ کے ایک سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کو سندھ کے لئے اپنا معاون خصوصی مقرر کر لیا ہے ۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم روز اول سے سندھ میں گورنر اج کا مطالبہ کر رہی ہے ۔ دوسرے اتحادی سندھ گرینڈ الائنس والے ”انقلاب” برپا کرنے کی تجاویز دیتے رہتے ہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ سندھ فتح کرنے کی خواہش کی انگڑائیاں چین نہیں لینے دیتیں۔ ہمارے ایک ملتانی مخدوم جناب قریشی بھی اس معاملے میں خاصے اتاوے ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ ارباب غلام رحیم کا دعویٰ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے 30سے 35 ارکان توڑ کر سندھ کی فتح کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔ گھوڑا اور میدان دونوں موجود ہیں دعویدار بھی اب وزیر اعظم کا مشیر بنا دیا گیا ہے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے ا لبتہ ایک بات ہے وہ یہ کہ ایسی کسی کوشش کی وزیراعظم کو حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے آئندہ الیکشن میں دو سال پڑے ہیں وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر سیاسی مقبولیت انتخابی میدان میں آزمائیں تو یہ سب کے حق میں بہتر رہے گا۔

مزید پڑھیں:  میر علی میں دہشت گردی