لائحہ عمل کا اطلاق کہاں ہو؟؟

آج سے کئی دہائیاں پہلے جب میں نے کالم لکھنے کا آغاز کیا تھا’ اس وقت معلوم نہیں تھا کہ کبھی وقت ایسا بھی آئے گا کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز مشکل ہوجائے گی۔ اچھے اور برے کا فرق معلوم نہ ہو سکے گا اور جسے دن کی روشنی سمجھنا تھا اس پر رات کے سیاہ گھپ اندھیرے کا گمان ہو گا۔ میں نہ جانتی تھی کہ بظاہر صاف ستھرے محب وطن دکھائی دینے والے لوگوں کے بارے میں ایسی باتیں معلوم ہونے لگیں گی کہ ان کی آواز سننے سے گھبراہٹ محسوس ہو گی اور وہ جن کے بارے میں یقین ہو گا کہ انہوں نے اس ملک کے عوام کو لوٹ کھایا ہے ان کے حوالے سے ایسی بھی باتیں منظر عام پر آئیں گی کہ ان کی اچھائی کے بارے میں سوچ بچار کرنے کو جی چاہے گا۔ شاید یہی زندگی ہے کہ جس میں سیاہ و سفید کا کوئی حتمی دائرہ نہیں۔ یہاں سیاہ اور سفید کی حدیں آپس میںگڈ مڈ ہیں اور کب کوئی کس جانب سے دوسری جانب جانکلے اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ کب غلطیاں حکمت عملی میں بدلتی ہیں اور کب نہایت سوچ سمجھ کر کئے گئے فیصلے بس مذاق بن کر رہ جاتے ہیں۔ زندگی اپنی بے ثباتی کے رنگوں کی شدت کے ساتھ پاکستان میں(ہر غریب بدعنوان ملک میں جہاں حکومت کرنے کے لئے اہلیت کی نہیں بلکہ کسی طاقت کا ہاتھ پکڑ لینے کی ضرورت ہوتی ہے ) حاوی ہے اور اس کے بوجھ تلے عام آدمی بری طرح کسمسا رہا ہے ‘ سسک رہا ہے لیکن کوئی راستہ نہیں ملتا۔
ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ناامیدی اور مایوسی کے تمام تر زاویے موجود اور مکمل ہیں اور اس کے باوجود لوگوں کی آنکھوں سے خواب نہیں دھلتے ‘امید کی ڈور ہاتھوں سے نہیں چھوٹتی کل کے نام پر مٹھی میں دبی تتلیوں کے پروں کے رنگ نہیں اڑتے ‘ ہم کیا کمال لوگ ہیں ‘ پٹرول پانچ روپے سستا ہو یا سات روپے مہنگا ‘ لوگوں میں گندم خریدنے کی سکت ختم ہوجائے یا حکومت کے جاری کردہ ہیلتھ کارڈ سے بہت آسانی محسوس ہونے لگے ‘ سردیوں میں شدت آجائے یا اسموگ جاں لیوا محسوس ہونے لگے ہم کسی بھی بات پر کوئی آواز بلند نہیں کرتے ‘ ہم احتجاج کرنا ہی نہیں چاہتے ‘ ہم ہر حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اور ایسے پرامید ہیں کہ کل سے محبت کا رشتہ ہمیشہ ہی وابستہ رکھتے ہیں’ ہمیں اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ یہ حکمران نااہل ہیں یا گزشتہ بدعنوان تھے کیونکہ ہم بدعنوان بھی ہیں ‘ نااہل بھی اور خواہشات کے پروردہ بھی ‘ ہم خواب دیکھنا چاہتے ہیں اور خوابوں کی صحت کے بارے میں کبھی بھی مشوش نہیں رہتے ۔ لیکن کسی کو کوئی پریشانی نہیں ‘ یہ پریشانی اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک کوئی کالا بدبودار سایہ دیوار پھاند کر اپنے گھر کے آنگن میں داخل نہ ہوجائے ۔ یہ چند دہائیوں کی تبدیلی ایسی جان لیوا ہو گی میں نے کبھی نہیں سوچا تھا ‘ اسی قوم کا حصہ ہوتے ہوئے بنا ہاتھ پیر ہلائے میں نے سوچا تھا کہ کل ‘ آج سے بہتر ہو گا ‘ پاکستان میں بھی ترقی ہو گی ‘ بہتری ہو گی ‘ اثبات ہو گا لیکن یہ سب کیسے ہوگا اس کا لائحہ عمل کسی کے پاس نہ تھا۔ میرے اور آپ کے پاس ایک توجیہہ تھی کہ ہمارے لائحہ عمل مرتب کرنے سے اس ملک و قوم کوکوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہ لائحہ مل کسی حکمران کو مرتب کرنا ہو گا۔ تبھی تبدیلی آئے گی ۔ اس خواہش سے دست وگریباں ہوتے بالاخر ہم نے تحریک انصاف کو ووٹ دیئے اور پھر یہ ٹھان لی کہ ہم نے جادوگروں کو ووٹ دیئے ہیں اور اس بات میں اتنا یقین رکھا کہ حکومت کو بھی یہ یقین دلایا ۔ انہوں نے بھی دنوں میں تبدیلی کے دعوے کئے ‘ حالانکہ یہ سب یوں ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی طرح ممکن ہی نہیں تھا۔جادوگری کے دکھائی نہ دیئے جانے پر مایوسی نے دلوں میں ڈیرہ توڈالا لیکن
ہم زندگی کی رفتار کے ساتھ گھٹتے رہے اور مسلسل اسی صورتحال کا شکار ہیں۔ مگر اس حقیقت سے مفر کسی طور ممکن نہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کولائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت تھی اور اس لائحہ عمل کا کسی نہ کسی طور اس ملک اور خود ہمارے اس ملک سے وابستہ مستقبل سے متعلق ہونا بھی بہت ضروری تھا۔ ایک اور غلطی ہم ایک نئے سرے سے کر رہے ہیں اور عنقریب اس کے اثرات بھی ہم معاشرے میں دیکھنا شروع کردیں گے وہ یہ ہے کہ یہ احساس ہوتے ہی کہ ہمیں دراصل ایک لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے کئی ایسے لوگ ہیں جولائحہ عمل مرتب کرنے لگے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس اس ملک کے مسائل کے حل کا ایک نسخہ موجود ہے لیکن ہر کوئی اس ملک کا وزیر اعظم بننا چاہتا ہے کوئی اپنی حد تک تبدیلی نہیں چاہتا لوگ اس ملک کواپنی ڈگر پر اپنے چابک سے چلانا چاہتے ہیں۔ یہ طریقہ کار کس حد تک درست ہے اس کا فیصلہ تو بار بار ہوتا ہے ۔ کیونکہ کتنے بھی صفر ہوں اور کبھی بھی طاقت رکھتے ہوں لیکن صفر ہی صفر آپس میں مل جانے سے بھی ان کی کوئی اہمیت کوئی طاقت نہیں ہوتی۔ اب رانا شمیم کے بیٹے کو دیکھ لیجئے ۔ ایک نئی سیاسی پارٹی لانچ کر ڈالی ۔ میں احمد جواد کی پارٹی کے پوسٹر دیکھ کر بھی حیران رہتی ہوں’ اور ایسی کئی پارٹیاں ہیں جو محض مٹھی بھر لوگوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور وہ بھی دل میں وزیر اعظم بننے کی امید جگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کے لائحہ عمل میں بھی کبھی کوئی تبدیلی انفرادی یا چھوٹی سطح پر نہیں ہوتی۔ وہ بھی ملک کو ہی بدلنا چاہتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے تحریک انصاف بنا کسی تیاری کے ملک پر حکومت بنا بیٹھی اور اب ON JOB TRAININGلے رہی ہے ۔ اس سب کا اس ملک کو کیا فائدہ ہے اس سوال کا کوئی جواب دیتا ہی نہیں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کا اس ملک کو محض نقصان ہے ۔ لائحہ عمل مرتب کرنا ضروری ہے لیکن اس کا اطلاق انفرادی سطح سے ہونا چاہئے ۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے