16دسمبر ‘ گوادر دھرنا ‘ تاریخ کا المیہ

محمد شفیق بنگش اور سید احمر علی نے ای میل کے ذریعہ شکوہ کیا ہے کہ ”آپ نے 16دسمبر کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا ۔ سقوط مشرقی پاکستان اور سانحہ اے پی ایس پشاور کونظر انداز کرنا ہمیں اچھا نہیں لگتا” قارئین کی ناراضگی پر یقینا ان موضوعات پر لکھا جانا چاہئے بہت سارے دوستوں نے لکھا بھی تحریر نویس نے ان دو واقعات کو نظر انداز نہیںکیا ہمارے تئیں نظر دستیاب تاریخ اور معلومات ہیں یا پھر عمومی حالات ۔ اس سماج میں ہر کوئی اپنے سچ کے سوا کچھ بھی سننا پڑھنا نہیں چاہتا۔ سوال کسی کو اچھے نہیں لگتے مکالمہ ہوتا نہیں ملاکھڑے کا فائدہ ۔ مختصراً یہ کہ ہم نے ہر دو واقعات سے سبق نہیں سیکھا۔ تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ ہم اس سے سبق سیکھنے کی بجائے نئے المیوں کودعوت دیتے ہیں اور رونما ہونے پر مرثیہ خوانی شروع۔ فی الوقت تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کی قائم کردہ دو رکنی وزراء کمیٹی(اسد عمر اور زبیدہ جلال) نے گوادر دھرنے کے شرکاء کے نمائندوں مولانا ہدایت الرحمان اور دیگرسے ملاقات میں ابتدائی بات چیت کی ہے ۔ وفاقی وزرائ31دن بعد دھرنے تک پہنچ پائے ۔تصور کیجئے ہزاروں مرد و زن اور بچے پچھلے 32 دنوں سے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں دھرنا دے کر بیٹھے ہیں۔29دن تک مین سٹریم کہلانے والے ذرائع نے اس کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ اس دھرنے کی پہلی نمایاں خبر اس وقت سامنے آئی جب جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق خطاب کے لئے پہنچے ۔ دوسری خبر فقط سنگل کالمی تھی وہ عوامی ورکر پارٹی کے صدر یوسف مستی خان کی بغاوت کے مقدمہ میں گرفتاری کی ۔ مین سٹریم میڈیا کی بلا جانے یوسف مستی خان کون ہیں۔ بغاوت کا یہ مقدمہ ان کی اس تقریر پر درج ہوا جو انہوں نے گوادر دھرنے کے شرکاء میں کی۔ یوسف مستی خان معروف ترقی پسند سیاستدان ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی سے ان کے سیاسی سفر کا آغاز ہوا ‘ یہ ان ماہ و سال کی بات ہے جب نیشنل عوامی پارٹی اس ملک کے ترقی پسندوں کی سب سے بڑی جماعت تھی۔بھٹو صاحب کے دور میں اس جماعت پر پابندی لگی این ڈی پی اور اے این پی اسی کا تسلسل ہیں ایاین پی اب پشتون قوم پرست جماعت ہے ۔ نیپ پر پابندی کے بعد حیدر آباد سازش کیس بنا یہ مقدمہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے واپس لیا اور حیدرآباد سازش کیس کے قیدی رہا ہوئے ۔ اسیری کے زمانے میں پشتون اور بلوچ رہنمائوں کے درمیان اختلافات نے جنم لیا ان اختلافات کی کہانی پھر سہی مگر یہی دونوں قوموں کے بڑے رہنمائوں کے جدا جدا سیاسی سفر کی بنیاد بن گئے ۔ خان عبد الولی خان اور ان کے پشتون دوستوں نے این ڈی پی کے پلیٹ فارم سے سیاست شروع کی میر غوث بخش بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی قائم کی سندھ ‘ سرائیکی وسیب پنجاب اور بلوچستان کے معروف ترقی پسندرہنمائوں کے ساتھ چلے گئے ۔گوادر دھرنا بنیادی شہری حقوق ‘ سیاسی آزادی ‘ امن تعلیم ‘ صحت اور تعمیر و ترق کے خوابوں کی تعبیر کے لئے ہے ۔ دھرنے والوں اور ان کے ہمدردوں کا موقف ہے کہ چیک پوسٹوں کا جنگل بنے اس شہر میں کسی”اور” کے احکامات چلتے ہیں۔ یہ کون ہے ۔ اس پر بات کرتے ہوئے زبانیں تالو سے جا لگتی ہیں ۔ ورنہ کیا صوبائی حکومت کو معلوم نہیں تھا کہ ہزاروں مرد و زن اور بچے کھلے آسمان کے نیچے پندرہ نومبر سے دھرنا دے کر بیٹھے ہیں؟ معاف کیجئے معلوم تھا۔ لیکن کیا بلوچستان کی حکومت کے پاس ملک کے باقی تین صوبوں کے کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے برابر اختیارات ہیں؟ اگر آپ اس سوال کا جواب تلاش کر لیں تو معاملات کو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔ معاف کیجئے گا یہ کوئی سازشی تھیوری نہیں تلخ ترین حقیقت ہے ۔ ورنہ جدیدیت سے گائوں بنے کرہ ارض میں یہ کیسے ممکن ہے کہ پندرہ نومبر سے گوادر میں دھرنا اور احتجاج جاری ہو اور صوبائی حکومت اس سے لاعلم رہے ۔ گوادر بھی ویسا ہی شہر ہے جیسے دوسرے سرحدی و ساحلی شہر ہوتے ہیں خفیہ اہلکاروں کی بھرمار ہر خبر پر نظر اور سانس شماری ‘ وہ دوست جو یہ سوال کرتے ہیں کہ گوادر میں بندر گاہ کی تعمیر و توسیع کے ساتھ ہی شہر میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کیوں شروع نہیں کیا گیا ان کا سوال سوفیصد درست ہے ۔ خطے میں بڑی اور جدید بندر گاہ بنانے والوں نے ساحلی شہر کو جدید سہولتوں سے منظم کرنے کی منصوبہ بندی کی ضرورت کو کیوں نظر انداز کیا۔ کیا انہیں مقامی آبادی کی ضرورتوں ‘ محرومیوں ‘ مسائل اور ان معاملات سے آگاہی نہیں تھی جن سے بگاڑ اور دوریاں ہرگزرنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہے تھے؟ اب کہا جارہا ہے کہ وفاقی وزراء کی کمیٹی کے مذاکرات تسلی بخش طور پر آگے بڑھے تو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی مذکراتی عمل میں شریک ہوں گے ۔ ارے واہ یہ تو چمتکار ہو گا۔ یہاں اصل المیہ یہی ہے ۔ وہ یہ کہ ھرنے والوں کی قیادت یقیناً جماعت اسلامی والے مولانا ہدایت الرحمان کے پاس ہے مگر شرکائے دھرنا تو وہی ہیں قومی سیاسی شعور کی دولت سے مالا مال اس لئے تو مرد و زن اور بچے 31 دنوں سے دھرنے میں بیٹھے ہیں۔ دھرنا پرامن ہے تو یہ ماہی گیر خاندانوں کے سیاسی شعور ‘ تمیز اور امن پسندی سے دو ٹوک محبت کا نتیجہ ہے ۔ خوفزدہ کون ہے؟ یہ بجا ہے کہ دھرنے والوں کا اہم ترین اور پہلا مطالبہ ٹرالرز کے ذریعے ہونے والی غیر قانونی ماہی گیری کوبند کروانے کا ہے ۔ اس غیر قانونی ماہی گیری کی وجہ سے صدیوں سے کشتیوں کے ذریعے ماہی گیری سے منسلک ہزاروں خاندانوں کے ذریعہ روزگار پر خود کش حملہ ہوا ہے ۔ لیکن دوسرے مطالبات بجلی ‘ پینے کا صاف پانی ‘ جدید ہسپتال کا قیام ‘ یونیورسٹی کو جدید خطوط پر منظم کرنا ‘ چیک پوسٹوں کا خاتمہ ‘سمگلنگ کی روک تھام ‘ بھتہ گیری کا صفایا اور شہر میں جدید سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ مقامی لوگوں کو ملازمتوں میں حصہ دینے کا مطالبہ ۔ کیا یہ سارے مطالبات اپنی صوبائی اور وفاقی حکومت سے کئے جارہے ہیں یا کسی فاتح سے مفتوحین کر رہے ہیں؟ تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہم اس سے سبق سیکھنے کی بجائے نئے المیوں کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور رونما ہونے والے پر مرثیہ خوانی شروع ۔پس نوشت:۔ کالم لکھ چکا تو گوادر سے دوستوں نے اطلاع دی کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان آج شام پانچ بجے گوادر تشریف لا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے