مشرقیات

دل تو چاہتا ہے کہ آپ کو کھری کھری سنائی جائیں تاہم ایک تو آپ کا بھی روزہ ہے اورہمارا بھی ،اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ روزے کی حالت میں اس قوم سے چھیڑ چھاڑ کتنی مہنگی پڑتی ہے، اصل میں بات یہ ہے کہ ہم نے رمضان خریداری کے سلسلے میں بازارکا رخ کیا تھا تب تک رمضان کے چاند کا اعلان بھی نہیں ہواتھا کہ اس کے سر چڑھ کر بولنے کا کیا سوال تاہم ادھر ہم نے بازار کا رخ کیا ادھر معلوم ہو گیا کہ اپنے بھائی بندے رمضانی مہم پر نکلنے کے لیے چاند کے اعلان کے محتاج ہی نہیں ہوتے بس ہفتہ عشرہ رہتا ہو تو رمضان اور کریم گودام بھر کر ہر چیز کو ذخیرہ کر لیتے ہیں ،آپ نے سال بھر قبل دیکھا تھا کہ لیموں کے نرخ اتنے بڑھ گئے تھے کہ جن کی ملی بھگت سے انہیں ذخیرہ کیا گیا تھا وہ انہیں برآمد کرنے کے لیے چھاپہ مارنے پر مجبور ہوگئے ،ظالمونے ایک ہاتھ مال قبول فرمایا تھا اور دوسری طر ف حاجی صاحب کو چھاپے کی کانوں کانوں خبر نہیں ہونے دی۔ان سے تو وہ واپڈا اہلکار اچھے جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں چوری کی بجلی بیچتے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے جو گرگے رکھے ہوئے ہیں انہیں بچانے کے لیے افسران اعلیٰ وبالا کے چھاپوں کی اطلاع قبل ازوقت لیک کر دیتے ہیں۔بہرحال حاجی صاحب کی جو بدنامی قسمت میں لکھی تھی وہ ہو کر رہی ،اس کے بعد سنا ہے وہ اپنی بدنامی کا داغ دھونے کے لیے پھر حج کرنے چلے گئے تھے حاجی سے حجاج بن کر بھی انہوں نے ہمیں رمضان پیکج دینا نہیں چھوڑا۔بازار کی بات کدھر نکل گئی چلیں واپس آئیں بازار کی طرف تو جناب یہاں بازاری ماحول سا بنا دیا گیا تھا رمضان سے قبل اور اس بازاری ماحول میں جب ہم نے کسی بھی چیز کے دام پوچھے تو تگنے چوگنے ،اس پر احتجاج کے موڈ میں دیکھتے ہی رمضانی اور کریم بھائی نے صاف صاف کہہ دیا کہ ”لینا ہے تو یہ دام ہیں ورنہ آگے پھٹا کھائو”۔سو ہم نے آگے پھٹا کھایا مگر یہاں کون سے یہودی لابی کے ایجنٹ بیٹھے تھے وہی رمضان اور کریم بھائی کے بھائی بندوں سے ہی پالا پڑا،جن کے پاس ظاہر ہے ایک ہی رٹا رٹایا جملہ تھا” لینا ہے تو لو ورنہ آگے پھٹو”۔ مسئلہ یہ تھا کہ بازار کا رخ کرنے والے خالی ہاتھ گھر کیسے جاتے اور دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اپنے حساب کتاب کے مطابق بلکہ اس سے کچھ زیادہ رقم بھی احتیاط کے طور پر ساتھ لانے والے خواتین وحضرات بازار کے بھائو کو سن کر غش کھا گئے تھے ،ان میں سے بہت سے ان اعلی وبالا حکام کو ڈھونڈ رہے تھے جن کے دستخطوں سے بازار کی ہر دکان پر نرخ نامہ تو آویزاں تھا مگر اس پر عمل کرانے والے ہرکارے خوددکاندار بن کر بیٹھے تھے۔ رمضان اور کریم بھائی کے اس گٹھ جوڑ کو یا رلوگوں نے رمضان پیکج کا نام دیا ہے تو کہیں اسے سستا بازار قرار دے کر ہم کو ماموں بنایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر !!!کم ازکم لیکن آخری نہیں