سوال گندم جواب چنا

ازخود نوٹس کی سماعت کے آغاز پر جاری کئے جانے والے ابتدائی حکم نامے کے باوجود صدر مملکت ان تمام معاملات کو جو نگران حکومت کے قیام اور انتخابی عمل کے انعقاد کیلئے ضروری ہیں تیزی کے ساتھ مکمل کرنے کے خواہش مند ہیں اس پر اپوزیشن رہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ ایوان صدر کو سابق حکمران جماعت کے مرکزی رابطہ دفتر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ صدر مملکت ملک کے آئینی سربراہ ہیں انہیں دستور اور قانون کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ معاملہ عدالت میں ہے اور ازخود نوٹس کی سماعت کے آغاز سے فیصلے سنائے جانے تک کے سارے ریاستی و انتظامی احکامات عدالتی فیصلے سے مشروط ہیں۔ جناب صدر کے دفتر سے لکھے جانے والے بعض خطوط اور دیئے جانے والے احکامات سے یہ تاثر بن رہا ہے کہ ملک کی اعلی ترین عدالت کے حکم کو مدنظر نہیں رکھا جارہا اس تاثر کو زائل کرنا خود جناب صدر کی ذمہ داری ہے۔ ازخود نوٹس کی سماعت کے آغاز سے اب تک ہوئی بحث سے کسی کے لئے بھی یہ اخذ کرلینا مشکل ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا۔ جناب وزیراعظم اوران کے رفقا مبینہ دھمکی آمیز خط اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی کو اپنی تعبیر و تفسیر کے ساتھ بیان کرتے ہوئے مخالفین کے لئے جو عمومی فضا بنارہے ہیں یہ کسی بھی طرح درست نہیں۔ انہیں یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اگر آئین کے آرٹیکل5کے تحت دی گئی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ عدالت نے غیرقانونی قرار دے دی تو سیاسی میدان میں وہ کہاں کھڑے ہوں گے۔
ملک دشمنی’ امریکی گٹھ جوڑ سے حکومت گرانے کی سازش اور غداری کے بیانیہ کو اپنی سیاست کی اساس بناکر سابق حکمران جماعت جس راستے پر چل رہی ہے اس سے وقتی فوائد تو ممکن ہے حاصل ہوجائیں مگر ان فوائد کی وجہ سے معاشرے کو جو نقصان ہوگا اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ سپریم کورٹ میں چار دن سے جاری سماعت کے دوران حکومتی اقدامات اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے حق میں دلائل دینے والے وکلا سے معزز جج صاحبان یہ سوال ایک سے زائد بار پوچھ چکے ہیں کہ کیا جس الزام کو بنیاد بناکر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی ان الزامات کی کہیں تحقیقات ہوئیں متاثرہ فریق کو موقف پیش کرنے کا موقع دے کر معاملات فائنڈنگ تک پہنچے؟قابل غور بات یہ ہے کہ عدالت کے اندر اور باہر اس سوال سے سبھی پہلو بچاتے دکھائی دیئے ۔ سابق وزیر خارجہ جوکہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں بطور رکن شریک تھے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں شریک عسکری حکام نے امریکی گٹھ جوڑ سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد اور اس کے لئے بیرونی فنڈنگ کی فراہمی کے حکومتی موقف کو تسلیم کیا نیز کیا سفارتی کیبل میں بھی یہ دونوں الزامات موجود ہیں؟ تو انہوں نے سوال کا جواب دینے کی بجائے کہا اپوزیشن انتخابات مانگتی آرہی تھی اب آئے میدان میں اور ہمارا مقابلہ کرے فیصلہ عوام کریں گے کہ غدار کون ہے۔ سابق وزیر خارجہ کے اس بیان پر نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ سوال گندم جواب چنا۔ سابق حکمران قیادت کے ذمہ داران جس بنیادی سوال کو نظرانداز کرکے غدار غدار کی تکرار میں مصروف ہیں لیکن جب امریکی گٹھ جوڑ، سازش، بیرونی فنڈنگ اور غداری ان چار الزامات کی کہیں تحقیقات ہوئیں نہ اپوزیشن کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ملا تو پھر وہ یکطرفہ طور پر غداری کا بیانیہ بناکر سیاست کیوں کررہے ہیں؟ سابق وزیر خارجہ اور چند دیگر وزرا نے گزشتہ روز بین الاقوامی نیوز ایجنسی رائٹر کی اس خبر کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس میں نیوز ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی عسکری حکام کے ذمہ دار ذرائع نے سفارتی کیبل کے متن اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس اور فیصلے کے حوالے سے سابق حکمران قیادت کی جانب سے اپنائے گئے موقف کی تصدیق نہیں کی بلکہ ایک اور سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ حکومت کو بتادیا گیا تھا کہ سازش اور غداری کے حوالے سے ان کے الزام میں کوئی حقیقت نہیں ہماری تحقیقات میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپوزیشن اور امریکہ میں کوئی روابط تھے۔ متعدد سابق وزرا بین الاقوامی نیوز ایجنسی کی اس خبر کی بنیاد پر پوچھے جانے والے سوال پر سوال کرنے والے صحافیوں سے جس طرح الجھ پڑتے ہیں اس سے تو ان کا اپنا بیانیہ کمزور پڑتا ہے۔ یہاں یہ بات مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ نیوز ایجنسی کا دعوی ہے کہ ہمارے نمائندے کے سوال کا عسکری ذرائع نے تحریری جواب دیا ہے ، ہماری دانست میں اپوزیشن رہنمائوں کا یہ مطالبہ درست ہے کہ چونکہ سابق حکمران قیادت ان پر لگائے جانے والے سنگین الزامات کے لئے عسکری حکام کا کاندھا استعمال کررہی ہے تو ضروری ہوگیاہے کہ عسکری حاکم اپنے ترجمان کے ذریعے عوام کے سامنے حقیقت حال کو رکھیں یا پھر سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اپنا تحریری موقف جمع کروادیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سابق حکمران قیادت کے بیانیہ کے حوالے سے عسکری حکام کے تصدیق یا تردیدی بیان میں جتنی تاخیر ہوگی نقصانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ اصولی طور پر انتخابی عمل سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ اگر واقعی اپوزیشن قائدین اور ان کی جماعتیں امریکی گٹھ جوڑ سے بنائی گئی سازش کا حصہ تھیں تو نہ صرف ان کے خلاف مقدمات قائم ہونے چاہئیں بلکہ ان کی جماعتوں پر پابندی کے لئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کئے جانے بہت ضروری ہیں۔ اندریں حالات اس امر کا اعتراف کیا جانا بہت ضروری ہے کہ سابق حکمران قیادت کا غداری کے الزام کو لے کر جارحانہ سیاست کرنا ایسے سنگین مسائل کو دعوت دے رہا ہے جن کا ازالہ بہت مشکل ہوگااس لئے ضروری ہے کہ اصلاح احوال کے لئے کسی تاخیر کے بغیر کوئی قدم اٹھایا جائے تاکہ پورا سچ عوام کے سامنے آئے اور وہ آئندہ عام انتخابات میں سوچ سمجھ کر اپنی قیادت کا انتخاب کریں۔ مکرر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ سابق وزیراعظم اور ان کے رفقا جس بیانیہ کی بنیاد پر اپنے حامیوں کو مشتعل کرنے میں مصروف ہیں اس کی وجہ سے اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا تو ذمہ دار کون ہوگا ؟

مزید پڑھیں:  دبئی میں اربوں کی جائیدادیں!