خطرناک سماجی فتنہ

مسلمان اپنی روایات اور اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں اور آئے روز والدین کے ساتھ بدسلوکی، تشدد اور قتل جیسے گھنائونے جرم کا ارتکاب ایک معمول بن چکاہے۔ اللہ کی عبادت کے بعد سب سے بڑی نیکی والدین سے اچھا سلوک ہے جسے مسلمان آج فراموش کرچکے ہیں ۔جبکہ انسانی رشتوں میں سب سے عظیم رشتہ ماں باپ کا ہے، دنیا کے سارے مذاہب ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہیں۔چنانچہ ایک شخص نے جب آپۖ سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا حق کتنا ہے؟ تو آپۖ نے فرمایا: وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔مطلب یہ ہے کہ اگر تم ماں باپ کی اطاعت اور خدمت کے ذریعہ ان کو راضی رکھو تو جنت پاؤگے، اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذارسانی کر کے انہیں ناراض کرو گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہوگا، ایک روایت میں آپ ۖنے خداکی رضامندی اور خوشنودی کو والدین کی رضامندی اور خوشنودی سے وابستہ فرمایا، چنانچہ فرمایا:اللہ کی رضامندی والدکی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔
والدین کی اطاعت وخدمت سے نہ صرف یہ کہ آخرت میں سرفراز کیا جائے گا، بلکہ خدمتِ والدین کے دنیوی اثرات بھی ہیں، ماں باپ کی خدمت کرنے والوں کو اللہ تعالی دنیا میں بھی خاص برکتوں سے نوازتا ہے، رسولۖ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالی ماں باپ کی اطاعت وخدمت اور حسن سلوک کی وجہ سے آدمی کی عمر بڑھا دیتا ہے۔نیز فرمایا: اپنے ماں باپ کی خدمت وفرماں برداری کرو، تمہاری اولاد تمہاری فرماں بردار اور خدمت گذار ہوگی۔ چنانچہ ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم لوگ رسولۖ اللہ کی خدمت میں حاضر تھے، بنی سلمہ کے ایک شخص آئے اور انہوں نے دریافت کیا: یارسول ۖاللہ!کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے حقوق بھی ہیں جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہئیں؟ آپۖ نے فرمایا: ہاں!ان کے لیے خیرورحمت کی دعا کرتے رہنا، ان کے واسطے اللہ تعالی سے مغفرت اور بخشش کی دعا مانگنا، ان کا اگر کوئی عہد معاہدہ کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا، ان کے تعلق سے جو رشتے ہوئے ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام واحترام کرنا۔ (ابوداؤد،ابن ماجہ)اس روایت میں والدین کے انتقال کے بعد ان کے تین حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کے لیے رحمت ومغفرت کی دعا۔ کسی سے ان کا معاہدہ ہوا ہو اور اس کی تکمیل کیے بغیر انتقال کر گئے ہوں تو اس کی تکمیل۔ان کے رشتہ دار اور دوست واحباب کے ساتھ حسن سلوک اور اکرام کا معاملہ۔
عمر کے ہر مرحلہ میں ماں باپ کی خدمت کرنی چاہیے، لیکن جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں تو ان کی اطاعت وخدمت میں کوئی کسر باقی نہ رکھنا چاہیے، اس لیے کہ بڑھاپے میں وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں، قرآن مجید میں اس کی خاص تاکید کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے،ترجمہ:اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا، ان سے نرمی سے بات کرنا، ان کے لیے عاجزی کے بازو بچھانا اور یوں کہنا میرے رب!ان پر آپ رحم فرمائیے جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔ آدمی کے لیے خوش نصیبی کی بات ہے کہ اسے ماں باپ کا بڑھاپا ملے، اس لیے کہ یہ ماں باپ کی خدمت کر کے اللہ کی رضا اور مغفرت حاصل کرنے کا زریں موقع ہوتا ہے، ماں باپ کا بڑھاپا پاکر بھی اگر کوئی اپنی مغفرت کا سامان نہ کرے، تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے؟
ایک طرف والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی اطاعت وفرماں برداری کی اس قدر تاکید ہے، دوسری طرف ہمارے معاشرہ کی وہ صورتِ حال ہے جسے دیکھ کر سرشرم سے جھک جاتا ہے، اسلامی تعلیمات سے دوری کا اثر یہ ہے کہ ماں باپ کی خدمت تو دور رہی، بہت سے بدنصیب نوجوان اپنے والدین پردست درازی میں بھی تامل نہیں کرتے، اب تو اخبارات میں اولاد کے ہاتھوں ماں باپ کے قتل کی خبر بھی آنے لگی ہے، والدین کی حکم عدولی، ان کی مرضی کے خلاف کام، گفتگو کے دوران تندلہجہ اختیار کرنا اب اتنا عام ہوگیا ہے کہ کسی کو حیرت بھی نہیں ہوتی۔نبی ۖنے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ قیامت کے قریب ماں باپ کی نافرمانی ہوگی۔ دور ِ حاضر کا یہ بھی ایک خطرناک سماجی فتنہ ہے ۔اس صورتِ حال کے ذمہ دار ایک حد تک خود والدین ہوتے ہیں جنہیں اپنی اولاد کی دینی تربیت کی فکر نہیں ہوتی، ماں باپ اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہیں، ایسی نعمت کہ جس کا کوئی بدل نہیں، دنیا کی بہت سے نعمتیں اگر فوت ہو جائیں، تو دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہیں، لیکن ماں باپ کی نعمت دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتی، اس نعمت کے ذریعہ آدمی اپنی دنیا بھی سنوار سکتا ہے اور آخرت بھی ، اس نعمت کی ناقدری کرنے والا نہ صرف یہ کہ آخرت میں پشیمانی اٹھائے گا، بلکہ اس کی دنیا بھی بے رونق ہو جائے گی۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے مفادات کا کسی کو خیال بھی ہے