زندہ کرداروں کو ”حنوط ” کرنے کا شوق

خدا جانے ہماری نفسیات میں کیا مسئلہ ہے کہ ہمیں اچھے بھلے چلتے پھرتے متحرک اور مقبول لوگ کیوں اچھے نہیں لگتے اور ہم ان کی مقبولیت کو ختم کرنے کی کوشش میں حماقتوں کی ایک قومی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں اور آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب وہ شخص سازشوں اور منصوبوں سے ماورا ہو کر امر ہوچکا ہوتا ہے ۔تب وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا ہے اور ہمارے سامنے اس غلطی کی اصلاح کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا مگر اس وقت تک حالات” گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں” کی عملی تصویر بن چکے ہوتے ہیں ۔اتوار اور پیر کی رات اسلام آباد کے نواحی علاقے بنی گالہ کی سڑکوں اور گلیوں میں جو مناظردنیا نے دیکھے اس نے ایک معروف صحافی کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ایک شخص کو امرکرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ایک طرف کراچی میں عمران خان کے نام پر ووٹ پڑ چکے تھے اور اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے ایک غیر معروف امیدوار کامیاب ہو رہے تھے تو دوسری طر ف اسلام آباد میں اسی جیت کے عنوان شخص عمران خان پر غداری اور دہشت گردی کے مقدمات درج ہو رہے تھے اور اس شخص کی گرفتاری کے سائے گہرے اور دراز ہوتے جارہے تھے ۔یہ وہی لمحات تھے جب اس شخص نے مختصر نوٹس پر راولپنڈی کے خونیں لیاقت باغ میں اُترنے کا فیصلہ کیا تھا ۔لیاقت باغ جو ملک پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے لئے مقتل ثابت ہوا تھا ۔کراچی کی کامیابی اور مختصر نوٹس پر لیاقت باغ میں طاقت کا مظاہرہ اس شخص کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا پتا دے رہے تھے تو عین اسی لمحے پیمرا کا ادارہ اس شخص کی آواز کو پابندیوں کے پردوں میں لپیٹ رہا تھا ۔ہم اپنے معاشرے کے اچھے بھلے ،قادر الکلام ،ذہین ،دنیا کے لئے پرکشش اور مقبول ومتحرک انسان کو ”حنوط ” کرکے عقیدت ،محبت،ندامت یا قومی زندگی کے تاسف کے خانے میں سجانے کا ہنر بھول کیوں نہیں جاتے؟ ۔شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو دونوں کی مقبولیت اور شخصیت کوحنوط کرنے کے شوق میں ہم حادثات کروابیٹھے ۔شیخ مجیب کی مقبولیت کے ٹائم بم کو ناکارہ بنانے کی مشق کے دوران یہ بم اس قدر زوردار دھماکے سے پھٹ گیا کہ خود اپنا وجود ہی گھائل ہوگیا اور ملک کا بڑا حصہ کٹ کر دور جا گرا۔ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کا ٹائم بم خود بھٹو کے ہاتھ میں پھٹا اور انہی کا حقیقی وجود گھائل ہوا مگر اس بم کی ایک کرچی ہماری قومی وجود کو یوں لگی کہ پھر وہی بھٹو دہائیوں تک پاکستان کی سڑکوں اور جلسہ گاہوں میں نعروں کی شکل میں راج کرتا رہا ۔یہاں تک کہ جس بھٹو کو رات کی تاریکی میں ایک لاوارث لاش کی طرح گڑھی خدا بخش کی قبر میں اُتار ا گیا تھا وہ قبر سے بول کر ہماری قومی سیاست کی وادیوں میں بازگشت پیدا کرتا رہا ۔یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ اسی ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کو واپس وطن لائے بنا کوئی چارہ نہیں رہا ۔ریاست کے انتظام اور انصرام کی چابیاں ان کے حوالے کی جارہی تھیں اور ہال زندہ ہے بھٹو کے نعروں سے گونج رہا تھا ۔دوسرے ہی روز بے نظیر بھٹو وزیر اعظم ہاوس میں گارڈ آف آنر وصول کررہی تھیں۔تاریخ کا یہ انتقام یہیں نہ رک سکا ۔ذوالفقار علی بھٹو کے جس بیٹے مرتضیٰ بھٹو کو الذولفقار کا سرغنہ اور سیکورٹی رسک قرار دیا جار ہا تھا ایک روز اسے بھی تزک واحتشام کے ساتھ وطن بلانا مجبوری ٹھہرا ۔کراچی سے ایک صحافی انٹرویو کے لئے شام کے دارالحکومت دمشق جا پہنچا ۔انٹرویو ہوا جس میں جوابی پیغام تھے اور یوں ریاست ان کے ساتھ راہ ورسم قائم کرنے پر مجبور ہورہی تھی۔آج ایک بار پھر ملک کے مقبول ترین سیاست دان کے ساتھ ریاست وحکومت کی پنجہ آزمائی جاری ہے۔اس کی مقبولیت کے جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے کے لئے سیاسی تجربات اور کیمیائی تعاملات کا عمل زوروں پر ہے ۔حکومت روز ایک نئی کہانی اور نئے کردار اور نئی گواہ کے ساتھ میدان میں آتی ہے عمران خان ایک تقریر کرکے اس گیند کو پویلین میں پھینک دیتا ہے ۔ہر کہانی بے اثر ٹھہرتی ہے اور اس کے ساتھ ہی عمران خان کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے ۔اس قوم نے بارہا کھیل ہی کھیل میں کھیل کو بگڑتے دیکھا ہے ۔لال مسجد کا واقعہ اس کی مثال ہے جب ریاست اور مولانا برادران کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہوئی تو ہر کوئی اسے فکسڈ میچ سمجھتا رہا ۔شاید ایسا ہی ہوتا مگر جوں جوں کھیل آگے بڑھتا گیا فریقین کے درمیان انا کی دیواریں چنی جانے لگیں اور یوں یہ دیواریں اس قدر اونچی ہوگئیں کہ حادثہ رونما ہوا۔پی ڈی ایم کی جماعتوں سمیت بہت سوں کو اب بھی شک ہے کہ عمران خان اور ہیئت مقتدرہ میں میچ فکسنگ کا معاہدہ ہو چکا ہے مگر بہت سوں کی خواہش ہے کہ معاملات اس قدر خراب ہوں کہ کوئی حادثہ ہوجائے ۔خیال رہے کہ لمحہ ٔ موجود کے مقبول لیڈر کو مینج کرتے کرتے ماضی کے دوواقعات کی طرح کوئی ایسی غلطی نہ ہوجائے کہ جس کی اصلاح کے لئے معززین کو لندن میں یہ کہتے ہوئے جمائما خان سے معذرت کرکے سلمان خان کا ہاتھ نہ مانگنا پڑے کہ اسلام آباد کی الماری میں ایک شیروانی ان کا انتظار کر رہی ہے ۔غلطیوں کی اس انداز کی اصلاح کی بجائے یہ اچھا نہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے احتراز کیا جائے اور وقت کے دھارے کو اپنے رخ اور رو میں بہنے دیا جائے۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر !!!کم ازکم لیکن آخری نہیں