ڈیفالٹ کا خطرہ؟

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت کے مشکل فیصلوں کی بدولت ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل چکا ہے ۔ معیشت سے متعلق بے بنیاد ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ۔ معروف عالمی انویسمنٹ بینکنگ اینڈ کیپٹل مارکیٹس فرم جینیریز کے وفد سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے فرم کوپاکستان میں اپنا دفتر کھولنے کی دعوت دی ‘ وفد نے وزیر اعظم کی قیادت میں پاکستان کی معاشی بحالی کو ایک اچھی علامت قرار دیا جس نے معاشی چیلنجز کا مؤثر انداز میں مقابلہ کیا اور ملک کو معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کیا ‘ ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے وفد کو بتایا کہ اتحادی حکومت کے مشکل فیصلوں کی بدولت ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل چکا ہے ‘ پاکستان کی معاشی صورتحال کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں ‘ اور معیشت سے متعلق بے بنیاد ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سابق حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت شدید خطرات سے دو چار ہونے کے بعد ‘ جس کے انتہائی خطرناک نتائج خدانخواستہ ڈیفالٹ کی صورت میں نکلنے کے بعد پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہے تھے ‘ آئینی طور پر عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی ممکن تو ہوئی ‘ تاہم اتحادی حکومت کو جن شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بقول حکومتی اکابرین’ معیشت کے حوالے سے منفی اشاریئے خطرے کے نشان ظاہر کر رہے تھے’ ایسے میں ملکی معیشت سنبھالنے کے لئے سابق حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدوں سے پھر جانا ملک کے لئے مہنگا پڑ رہا تھااور اپنے آخری دنوں میں عالمی معاہدوں کے برعکس بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی سے معیشت کے لئے”بارودی سرنگیں” بچھا کر ملکی مفادات کو دائو پر لگا دیا گیا تھا ‘ موجودہ اتحادی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بہ امر مجبوری سخت فیصلے کر کے عوام کے اندر اپنی سیاسی ساکھ بری طرح متاثر کی لیکن معیشت کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کی کوشش میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ‘ اور انہی حکومتی اقدامات کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا ہے ‘ اگرچہ معیشت کی صورتحال اب بھی زیادہ اچھی نہیں ہے تاہم بہتری کی طرف گامزن ضرور ہے ‘ وزیر اعظم شہباز شریف نے عالمی مالیاتی فرم کے وفد کے ساتھ دوران گفتگو جن عوامل کی طرف اشارہ کیا ہے وہ بقول ان کے گزشتہ چار سالوں کی نااہلیوں کا خمیازہ تھا جس کو بھگتنے سے ملک کو بچالیا گیا ہے ‘ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت مہنگائی کو کم کرنے اور عام آدمی کے ریلیف کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہی ہے ‘ حکومت بیرونی تجارتی خسارہ کم کرنے کے لئے کوشاں ہے اور بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کر رہی ہے ‘ وزیر اعظم نے جن حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی ملکی معیشت کے حوالے سے ملک کے ڈیفالٹ کر جانے کے بے بنیاد پروپیگنڈے کے بارے میں سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر بیانات عالمی سطح پر غلط تاثر پھیلا رہے ہیں اس حوالے سے جو لوگ اس سلسلے میں سرگرم ہیں ان کو ملکی مفادات کے ساتھ کھیلنے سے احتراز کرنا چاہئے ‘ اس لئے کہ یہ ملک رہے گا تو ہم دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے ۔ مگر صرف سیاسی مخالفت کی بناء پر ملک کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کر کے بعض سیاسی رہنما کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ وزیراعظم شہباز شریف نے کچھ عرصہ پہلے جب وہ قائد حزب اختلاف تھے’ عمران حکومت کو میثاق معیشت کی تجویز دی تھی ‘ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کو اس حوالے سے آگے آنا چاہئے اور ذاتی ‘ گروہی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف ملکی مفاد میں معیشت کے حوالے سے ایک سمجھوتے پر متفق ہو جانا چاہئے اس لئے کہ معیشت کی صورتحال بہتر ہو گی تو ملک صحیح سمت سفر کرے گا’ ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ملک کی معاشی اور معیشتی صورتحال کو دائو پر لگانے کا نقصان ملک کو ہوگا جس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش ہماری سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے۔
سٹریٹ کرائمز کے خلاف کریک ڈائون
صوبے اور خصوصاً صوبائی دارالحکومت پشاور میں بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز کے حوالے سے صوبے کے دو بڑے حکومتی اکابرین کی جانب سے تشویش کے اظہار اور آئی جی خیبر پختونخوا کو صورتحال پر قابو پانے کی ہدایات جاری کرنے سے صورتحال کی سنگینی کا احساس آسانی سے کیا جا سکتا ہے گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی اور وزیر اعلیٰ محمود خان کی آئی جی پولیس کے ساتھ الگ الگ ملاقاتوں کے دوران صوبے میں امن و امان کی صورتحال اور خصوصاً سٹریٹ کرائمز میں اضافے کی خبروں کے حوالے سے بڑے پیمانے پر سماج دشمن عناصر کے خلاف کریک ڈائون کی ہدایات جاری کرنا صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری تھا ‘ ملک میں سماج دشمن افراد جس قسم کی سرگرمیوں سے عوام کے لئے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں اور گلیوں ‘ بازاروں میں پرامن شہریوں سے موٹر سائیکلیں ‘ خواتین سے پرس ‘ لوگوں سے موبائل فونز چھیننے اور اسلحے کی نوک پر ان سے نقدی اور دیگر قیمتی اشیاء چھیننے کی وارداتیں رپورٹ ہو رہی ہیں’ خصوصاً اندرون شہر گلیوں میں سرشام بلکہ اب تو دن دہاڑے بھی اس قسم کی سماج دشمن سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے ‘ ان وارداتوں میں بعض جگہ مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض اہلکاروںکی تلویث کی افواہیں بھی عام ہیں ‘ حکومت کے متعلقہ اداروں کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟