قرضوں کی دلدل

کس پر یقین کریں ، کس پر نہ کریں۔ایک بار پھر ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں ہیں۔یہ بحث حکمران جماعت کے اندر سے شروع ہوئی اور اب پورے ملک میں زیر بحث ہے۔ عوام کس کو نجات دہندہ سمجھیں۔ذرا غور کریں کہ ہو کیا رہا ہے۔آٹے کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں۔ پیاز ، ٹماٹر ڈبل سنچری کر چکے۔ انڈے گوشت غریب کی پہنچ سے دور ہیں، دیکھ سکتے ہیں خرید نہیں سکتے۔
20 سے 30ہزار ماہانہ کمانے والا یوٹیلٹی بلز ادا کرے، بچوں کے سکولوں ، کالجوں کی فیسیں بھرے یا گھر سے فاقے ختم کرے۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ اور قرضوں کی دلدل ہے کہ مزید گہری اور ہولناک ہوتی جا رہی ہے۔ نا چاہتے ہوئے بھی کروڑوں پاکستانی اس میں دھنستے جا رہے ہیں، موجودہ ہی نہیں آنے والی نسلیں بھی دھنس چکی ہیں۔ تازہ ترین صورتحال کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ رہے خود سیاسی قیادت کہہ رہی ہے کہ حکومت شوگر ملز مالکان کے آگے گھٹنے ٹیک چکی۔
ملک ڈیفالٹ کر چکا مگر وزیر خزانہ اور حکومت اس بات کو چھپا رہے ہیں۔معیشت تباہ ہو چکی ، ٹرائیکا نے ملک کو بستر مرگ پر پہنچا دیا ،وزیر خانہ غلط بیانی کر رہے ہیں۔
خزانے میں صرف امانتیں موجود ہیں۔ایل سی بند ہونے کے باعث ملک میں غذائی سامان نہیں آرہا ،اشیائے خور و نوش کی قلت ہے۔کسی نہ کسی صورت میں سب جماعتیں حکومتی نظام میں شامل ہیں لیکن صرف”اپوزیشن ” دماغ میں بھری پڑی ہے۔ 9 کروڑ سے زائد لوگ خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پنشن اور تنخواہیں دینے کے بھی پیسے نہیں۔
پولیس جرائم پر قابو پانے کی بجائے پروٹوکول دینے میںمصروف ہے۔کس سے پوچھا جائے کہ پاکستان میں کاروباری اعتماد کا انڈیکس منفی زون میں کیوں چلا گیا۔ اوورسیز چیمبرز کے سروے کے مطابق پاکستان میں اوسط کاروباری انڈیکس منفی 4 ،سروسز سیکٹر میں کاروباری اعتماد منفی 8 فیصد جبکہ ریٹیل سیکٹر میں اعتماد منفی14 فیصد ہے۔ افراطِ زر اور مہنگے فیول کے سبب اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے مزید قرض کی درخواست کر دی ہے۔ ایسی خبروں کو کوئی بھی پاکستانی اپنے لیے اچھا نہیں سمجھتا لیکن”مجبوری ” ہے۔ قوم کی یا حکمرانوں کی؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔
پاکستان کو رواں مالی سال کے اختتام تک 16 ارب ڈالرز کا قرض واپس کرنا ہے اس حوالے سے ملک کی زرِ مبادلہ کی صورتِ حال بہتر بنانے کیلئے سر توڑکوشش جاری ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب سے مزید قرض کی صورت میں 4.2 ارب ڈالرز کی درخواست کی ہے، یہ درخواست توانائی کی خریداری اور بجٹ سپورٹ کیلئے کی گئی ہے۔ سعودی عرب سے 3 ارب ڈالرز بجٹ سپورٹ کے طور پر قرض کی درخواست کی گئی ہے،سعودی عرب سے دیگر پیمنٹ پر مزید 1.2 ارب ڈالرز مالیت کا تیل اور یوریا کھاد بھی لی جائے گی۔ سپورٹ کی یہ درخواست سعودی عرب کے سفیر کے ذریعے کی گئی۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں ہی سعودی عرب نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس رکھے گئے3 ارب ڈالرز کے ڈیپازٹ کا دورانیہ بڑھا دیا تھا، ڈیپازٹس کا دورانیہ کنگ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے احکامات پر بڑھایا گیا۔ سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ نے نومبر2021ء میں3ارب ڈالرز جمع کرائے تھے۔سٹیٹ بینک نے اس بڑی سہولت کے ملنے پر اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کے سٹیٹ بینک کے پاس3 ارب ڈالرز ڈیپازٹس ہیں۔اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ ان ڈیپازٹس سے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے۔ ان ڈیپازٹس کی واپسی کے دورانیے میں اضافہ کووڈ 19کی وباء کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے مقابلہ کرنے کی طاقت دے گا۔ یہ سہولت بیرونی ادائیگیوں کو توازن دینے اور پائیدار معاشی ترقی کا موقع دینے میں مدد دے گی۔ اب مدد ملی یا نہیں۔ اس کا جواب ابھی تک سامنے نہیں آیا ، کسی نے نہیں بتایا۔
سیاسی قیادت معاشی حالات سے پریشان ہے اور قرضوں سے تنگ بھی لیکن”تسلیم ” کرنے کو تیار نہیں، خود قربانی دینے کو تیار نہیں۔قوم کواس گرداب سے باہر نکلنے کا ”راستہ ” بتانے یا ڈھونڈنے کو تیار نہیں۔ اشرافیہ اپنی مراعات چھوڑنے یا کم کرنے کو تیار نہیں جبکہ قوم قربانیاں دے دے کر تھک چکی ، نڈھال ہو چکی اب تو فاقوں کا شکار ہے۔ خودکشیاں کر رہی ہے۔ حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ ڈار کے آنے سے ڈالر ”ڈر ” جائے گا ، جلد200تک آجائے گا لیکن ڈالر آج بھی بے لگام ہے اسے کسی کا ڈر نہیں۔ دوسری جانب یہ کہہ کر” ڈرایا” جا رہا ہے کہ مہنگائی قابو میں نہیں آئے گی، موجودہ حکومت اندر سے بہت پریشان ہے ،ان کے پاس جان چھڑانے کا کوئی آپشن نہیں ، یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح مہنگائی میں کچھ کمی آئے تو الیکشن کی طرف جائیں،اگر مہنگائی کنٹرول نہ ہوئی تو پھر یہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے بھاگنے کی کوشش کریںگے۔ مہنگائی کی شرح30 فیصد تک چلی گئی ہے ، دوست ممالک بھی دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت ضمنی انتخاب ہار رہی ہے۔ تکنیکی طور پر ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں، ایل سیز نہیں کھل رہیں ، گورنر سٹیٹ بینک نے درست کہا کہ قرضوں میں ہم ڈیفالٹ نہیں کریں گے مگر امید ہے کہ دوست ممالک مزید قرض دیں گے۔

مزید پڑھیں:  تنگ آمد بجنگ آمد