قبر تک پیچھا کرنے والی مہنگائی

ہر شعبہ زندگی مہنگائی کی زد میں آنے کے جو نتائج سامنے آ رہے ہیں ان کی انتہا اب یہ ہے کہ تدفین کے اخراجات بھی اب غریب لوگوں کی دسترس سے باہر ہونے لگے ہیں، انسان کیلئے جینا پہلے ہی دشوار ہو رہا تھا کہ اب مردوں کیلئے قبریں کھودنا، تدفین کے حوالے سے اٹھنے والے اخراجات بھی ناقابل برداشت ہو گئے ہیں، اس پر مرزا غالب کا یہ شعر پوری طرح منطبق ہو رہا ہے کہ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مرکے بھی چین نہ آیاتو کدھر جائیں گے
صورتحال تب تک پھر بھی قابل برداشت تھی جب قبروں کی کھدائی اور دیگر رسومات اہل خاندان خود اٹھاتے تھے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ کام گورکن معقول معاوضہ لے کر کرتے ہیں، مگر اب بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مزدورں کی دیہاڑی میں اضافے نے اس کو بھی مشکل سے مشکل تر بنا کر رکھ دیا ہے، رہی سہی کسر تابوتوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ نے پوری کر دی، کیونکہ معمولی لکڑی کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اسی طرح کفن کا کپڑا اور دیگر اشیاء پر بھی اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں، یہ صورتحال اگرچہ صرف شہروں تک ہی محدود ہے اور دیہات میں اب بھی لوگ اپنے مردوں کو دفنانے کیلئے اجتماعی طور پر قبریں کھودنے اور مردوں کی تدفین تک کا کام کر کے اس مشکل پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں، شہروں میں ان حالات نے لوگوں کو ایک بار پھر بغیر تابوت کے اپنے مردے دفنانے کے قدیم طور طریقے اپنانے پر مجبور کر دیا ہے، تاہم بعد از دفن پختہ قبروں کی تیاری ہر جگہ ایک مسئلہ بن رہا ہے، اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اگر میونسپل ادارے آگے آ کر عوام کے ساتھ دست تعاون دراز کریں اور جس طرح جنازہ گاڑی کی ارزاں سہولت عوام کو فراہم کر رہے ہیں، اسی طرح قبر کھودنے اور تدفین کے لئے بھی اپنے عملے کی کم ادائیگی پر خدمات پیش کریں تو عوام کو آسانی ہو گی، جبکہ شہر میں پرانے قبرستان کی جگہ نئے قطعات اراضی بھی مہیا کر دیں تاکہ لوگوں کو اپنے مردے دفنانے میں آسانی ہو۔

مزید پڑھیں:  پراسرار آتشزدگی