زمانہ خراب ہے

آج کل ہر کسی کو معاشرے سے شکایت کی تو پڑی ہے لیکن اپنی اصلاح پر توجہ کی ضرورت کم ہی محسوس کی جاتی ہے ۔ جس کسی سے بات چیت ہو بات گھوم پھر کر زمانے کی خرابی ‘ بے راہروی جیسے موضوعات پرآجاتی ہے یہ گفتگو کی حد تک اور خود کو ایک طرح سے فکر مند ثابت کرنے کے لئے ان موضوعات پر گفتگو تو بہت ہوتی ہے بلکہ ایسا کرنا عادت کا حصہ اور ان موضوعات کو چھیڑ نا گویا رواج کا حصہ ہی سمجھا جانے لگا ہے ۔ نوجوانوں سے خاص طور پر گلہ مندی کا اظہار ہوتا ہے علاوہ ازیں نئی نسل کی اپنی ا قدار اور روایات سے دوری پر تو لمبی لمبی گفتگو ہوتی ہے مگر جس نوجوان نسل کے لباس سے لے کر طرز زندگی اور معاشرت پر تنقید ہو رہی ہوتی ہے ایسا کرنے والے اتنے بے بس یا پھر لاپرواہ جوبھی ہوں اس قدر ہوئے ہیں کہ گویا وہ اپنے ہی بچوں کی بات کر رہے ہوں ان کی تنقید جس لباس اور انداز طرز زندگی اور طرز معاشرت پر ہوتی ہے ان کے بچوں اور عزیز واقارب میں وہی سب کچھ مروج نظر آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس پر کڑھتے توضرور ہوں گے لیکن اس کی روک تھام روک ٹوک اور اصلاح کی ذمہ داری یا تو مشکل گردان کر قبول ہی نہیں کی جاتی یاپھر وہ اس کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے باقی جو گفتگو ہو رہی ہوتی ہے وہ بس ایک موضوع گفتگو ہی ہو گی ورنہ کم از کم اپنے زیر اثر افراد کو روکنے ٹوکنے اور معاشرتی بگاڑ کا حصہ بننے سے روکنے کی کچھ کوشش ناممکن تو نہیں ہونی چاہئے ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک جانب روتے دھوتے ضرور ہیں مگر دوسری جانب ہمیں اپنے متعلقین کے اس میں گھل مل جانے پر تھوڑی بہت شکایت اگر موجود بھی ہے تو ہو گی مگر ملال کی حد تک نہ ہو گی یہ درست ہے کہ آج کل کے بچوں کو قائل کرنا اور ان کو اپنی سچ کی قالب میں ڈھالنا ممکن ہی نہیں آج کل کے بچے اپنے بڑوں سے اکثر معاملات میں زیادہ سمجھداری دکھاتے ہیں اور ان کی سوچ کا محور بھی درست سمت میں ہوتا ہے بنا بریں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ گھر کے بڑے بھی خواستہ و ناخواستہ اس تبدیلی کو قبول کر چکے ہیں آج کل کی ایک بڑی تبدیلی اولاد کاوالدین کی مطیع ہونے کی بجائے والدین کا بچوں کا مطیع ہونا اور اس کاشکوہ کناں اظہار بھی گویا مروج عمل ہے یہی معاشرتی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ بھی بن گئی ہے ۔ ان حقائق کے باجود پوری طرح سے معاشرتی اقدار سے انحراف بھی نہیں ہو سکتی۔معاشرتی بگاڑ اور نوجوان طبقے کوورغلانے میں میڈیا کا بڑا کردار ہے سوشل میڈیا کا تو ذکر ہی نہ کریں۔ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی کے ریموٹ کا بٹن دبانے پر اچانک الٹرا ماڈرن اور دیدہ زیب مگر چست و مختصر لبا س میں لڑکیاں شیونگ کے سامان سے لے کر ضرورت و استعمال کی ایک ایک چیز کو جس طرح پیش کر رہی ہوتی ہیں نوجوان نسل ان کو معیار اور نمونہ ٹھہرا کر ان کی پیروی میں لگ جاتی ہے ۔ جب ضرورت کی ہر چیز بیچنے کے لئے ناچتی گاتی جلوے بکھیرتی اور ادائیں دکھاتی لڑکیوں کا سہارا لیا جائے گا تو اس کے اثرات کے اچھے نکلنے کی بھی امید نہیں ہونی چاہئے ۔اشیاء کی فروخت کے لئے بنت حوا کو نچانے ‘ کندھے مٹکانے اور انداز دلربائی کی حدوں سے باہر نکلنے والی لڑکیوں کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کرنے کا یہ عمل جیب اور معاشرے دونوں پر بھاری پڑتی ہے ایسے میں ہماری قوم کا کردار و اخلاق بھلا کیونکر بلند ہو سکے گا۔ چست فینسی لباس ‘ گاگھرا پہن کر اٹھلاتی گلیمرس خواتین اپنی بھی نمائش اشتہارات سے لے کرڈراموں ‘ بازاروں اور دفاتر تک کرنے لگ جائیں تو عورت کی عزت اور معاشرے کی ابتری کی باتیں بس افسانوی حد تک ہی خود بخود محدود نہ ہوں تو کیاہو۔
طنز وتنقید کا رخ خواتین کی طرف کچھ زیادہ ہی ہوگیا دیکھا جائے تو اس معاشرے کا مرد بھی کم قصوروار نہیں کہ انہوں نے فضا سے لے کر ہسپتال کے بستر تک ہر جگہ وہ مقام اور ہر موقع پر صنف نازک کو بس دل بہلانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے صنف نازک کے بغیر تفریح اور دل بہلانے کا اب توکوئی ذریعہ اور رواج تک نہیں رہا مرد تو مرد ہوتے ہیں ان خواتین کو ہم کیا کہیں جو راضی و بخوشی خود کو پیش کرنے اور اپنی نمائش سے ذرابھی نہیں ہچکچاتیں بلکہ ایسا کرنے کو تو کسی حد تک جانے کی نوبت بھی آتی ہے ۔ٹی وی ڈرامہ لگائو وہاں پربلا روک ٹوک اور ہر طرح کے تعلقات اورٹیبو واضح دکھائی دیں گی۔ جن میں اصلاح کا پہلو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ۔ مانا کہ جو بھی دکھایا جاتا ہے وہ ہمارے معاشرے ہی کا حصہ ہے مگر کم از کم ٹی وی ڈرامے تو اتنی بھی واہیات نہیں ہونی چاہئیں کہ بندے کو گھر والوں کے ساتھ دیکھنے میں خجالت و شرمندگی محسوس ہو اور بندہ چینل بدلنے یا بند کرنے پر مجبور ہو جائے ۔ موویز کی تو بات ہی چھوڑ دیں جہاں بے ہودہ مکالمات لباس کی چستی وتنگی کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔جب اس طرح کا مواد عام میڈیا پر پیش ہوگا اور ساتھ میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا مثبت کی بجائے منفی استعمال ہو گا تو پھر اپنی تباہی کا آپ ہی ماتم کئے بنا چارہ نہیں۔
ہم زمانے کو کوستے ہیں زمانہ خراب نہیں زمانہ تو انہی لیل و نہار پرمشتمل ہے وہی صبح کو سورج کا طلوع ہونا اور رات کو چاند کا ظہور کچھ نہیں بدلا زمانہ اور فطرت نہیںہم بدل گئے ہیں ہماری سوچ اور اندا ز فکر تبدیل ہوگئی ہے ہم نے خود ہی اپنی پہچان کھودی ہے اپنی اقدار کا ہم خود ہی اپنے ہاتھوں خون کر رہے ہیں۔ہمیں اس امر کا اب احساس ہو جانا چاہئے کہ نام نہاد شخصی آزادی حاصل کرنے کی جستجو اور مغربی روایات کی تقلید میں ہم نہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے رہے ۔ اندھا دھند تقلید کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنی منزل سے بھٹکتے جارہے ہیں اور منزل دور ہوتی جارہی ہے مستقبل پر تاریکیوں کے گہرے سائے چھا رہے ہیں وقت کے دھارے میں بہہ کر بہت کچھ ہماری زندگیوں سے نکل چکا ہے ۔باقی کچھ نہیں بچا ۔ ہمیں من حیث القوم اس امر کا دھیان رکھنا ہوگا کہ ہماری زندگیوں اور معمولات میں جو کچھ شامل ہو رہا ہے وہ مثبت ہے یا منفی اور کس حد تک یہ ہمارے اخلاقی اقدار سے میل کھاتا یا پھر متصادم ہے یہ سراسر ہماری ذمہ داری بنتی ہے زمانے کو دوش دینا ٹھیک نہیں ۔ اپنی اصلاح کی سعی انگشت نمائی سے کہیں بہتر ہے اگر ہم سوچیں تو۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟