عدلیہ پردبائو؟

عالمی سطح پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں جوتاثر بنا ہوا ہے ، اس مقام تک پہنچانے میں اگرایک جانب مبینہ طور پر طاقتور شخصیات اور ادارے اس صورتحال کی ذمہ دار ہیں ، تودوسری جانب خود عدلیہ میں موجود کردار بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے ، جسٹس منیر کے دور سے نظریہ ضرورت نے عدلیہ کوبے توقیر کرنے کی جوبنیاد رکھی ، وہ ایک تسلسل کے ساتھ بعد میں آنے والے ادوار میں بھی قائم رہی اور گزشتہ چند برس کے دوران بقول چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اندرونی اور بیرونی مداخلت نے آج ہماری عدلیہ کو جس صورتحال سے دو چار کر رکھا ہے وہ یقینا لمحہ فکریہ ہے ۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے علاوہ دیگر فاضل ججز نے جو جو ریمارکس دیئے وہ نہ صرف قابل توجہ ہیں بلکہ ان کے اندرہی اس مسئلے کی کلید پوشیدہ ہے ، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ طے کرلیں ہم کسی سیاسی طاقت یا انٹیلی جنس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے ، کسی وکیل گروپ ، یا حکومت کے ہاتھوں استعمال نہیںہوں گے کئی واقعات بتا سکتے ہیں جب مداخلت ہوئی ، اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہئے جب تک پارلیمان مضبوط نہیں ہو گی تو دوسرے طاقت ور ہوجائیں گے چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہر قسم کی مداخلت چاہے وہ فون کال سے ہو یاعدلیہ سے ، نہیں ہونی چاہئے ، کیا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے مقدمات میں خود مداخلت نہیں کی ، ہمیں عدلیہ کے اندر بھی احتساب کی بات کرنی چاہئے ، ماضی میں جو ہوا سو ہوا ، اب سچ بولیں اگر ہم نے صرف الزام لگانے ہیں تو ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہو گا طے کرلیں کہ ہم کسی سیاسی طاقت یا انٹیلی جنس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے ہم کسی وکیل گروپ یاحکومت کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے ، عدلیہ میں ایک اور مداخلت وکلاء بار کے صدور کی ججوں کے چیمبر میں آمد ہے کیس کی از خود سماعت کے دوران دیگر فاضل جج صاحبان کے ریمارکس بھی اہم ہیں اور قابل غور قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہوسکتا ، تاہم فاضل چیف جسٹس نے دوران سماعت جن اہم نکات کی جانب توجہ دلائی ہے وہ اس کیس کی اہمیت کے حوالے سے کلیدی حیثیت کے حامل ہیں ، ادھر پشاور ہائی کورٹ نے اسی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے استفسار پر جو نکات تحریری صورت میں عدالت عظمیٰ کو ارسال کئے ہیں ان میں اس بات کا اعتراف خاصا چشم کشا ہے کہ ”خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں فیصلے اپنی مرضی کے کروانے کے لئے مداخلت کی اور بات نہ ماننے کی صورت میں ججز کو ا فغانستان سے غیر ریاستی عناصر سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں ان معاملات کو محکمہ انسداد دہشت گردی کے سامنے اٹھایا گیا مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جبکہ معاملات کو اعلیٰ سطح پر اٹھایا گیا ، پشاور ہائی کورٹ نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کوڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بند کرانے کے لئے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جانا چاہئے اور ہائی کورٹس کو اس معاملے پر مربوط لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ زیر نظر کیس کی سماعت کے دوران جہاں بہت ہی اہم نکات سامنے آئے ہیں ، وہاں مداخلت کے حوالے سے ماضی میں ”جو ہوا سو ہوا” جیسے ریمارکس سے جان آسانی کے ساتھ نہیں چھڑائی جا سکتی کیونکہ خود موجودہ عدلیہ ہی نے ماضی کے ایک اہم کیس میں کئی برس بعد عدلیہ کے کردار کے حوالے سے فیصلہ دے کر آئین اور قانون کا بول بالا کرکے انصاف کے تقاضے پورے کئے اور وہ فیصلہ ہے بھٹو کیس پر نظر ثانی کے بعد بھٹو کو انصاف کی فراہمی کا ، اس کے بعد ماضی کو ”دفن” کرنے کا بیانیہ قابل قبول نہیں ہے ، اسی طرح ماضی قریب میں خصوصاً شریف فیملی کے حوالے سے جو رویہ ماضی کی عدلیہ کے بعض کرداروں نے مبینہ طور پر طاقتور اداروں کے ساتھ مل کر ادا کیا اس حوالے سے چیف جسٹس نے اندرونی اور بیرونی مداخلت کے الفاظ میں پوری صورتحال کا احاطہ کردیا ہے اور دستیاب خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ججوں کے فیصلے ان پر بیرونی دبائو کے علاوہ خود اپنے خاندانوں کے افراد کے دبائو یا پھر ”لاڈ پیار” کا نتیجہ تھے ، جبکہ کچھ کرداروں کے حوالے سے مبینہ طور پر اب بھی ایسے فیصلے سامنے آرہے ہیں جو متعلقہ جج صاحبان کے ان مبینہ کرداروں کے ”عشق میں مبتلا” ہونے کا نتیجہ قرار دیئے جارہے ہیں اس لئے انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین اور قانون کی پاسداری بھی اہم ہے جس سے سرموانحراف بھی ان فیصلوں میں ”ذاتی مداخلت” ہی قرار دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  بزرگوں اور ضعیفوں کی نفسیاتی اذیت