اسرائیلی الزامات سے پھوٹا نیا سیاپا

دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اسرائیلی نمائندے کی جانب سے پاکستان میں شہری آزادیوں کی صورتحال، عوامی اجتماعات پر کریک ڈائون، گرفتاریوں اور بعض مذہبی اقلیتوں سے نامناسب برتائو کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیل انسانی حقوق پر اپنا ریکارڈ دیکھے، دفتر خارجہ کے مطابق اس حوالے سے دیگر ممالک کے مثبت بیانات کے برعکس موقف اپنانے والی اسرائیلی ریاست کی اپنی تاریخ ظلم و بربریت سے عبارت ہے، مزید مناسب ہوتا اگر دفتر خارجہ اسرائیلی نمائندہ کے الزامی خطاب کا شق وار جواب دے کر صراحت کے ساتھ موقف واضح کرتا۔ دوسری طرف اسرائیلی نمائندے کی تقریر کے مندرجات پر ہمارے ہاں گزشتہ روز سے طوفان برپا ہے، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ(ن) کے دو اہم رہنمائوں مصدق ملک اور عطاء تارڑ نے اس بیان کو عمران اسرائیلی گٹھ جوڑ کا بے نقاب ہونا قرار دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن تو خیر پچھلے کئی برسوں تے تواتر کے ساتھ عمران خان اور اسرائیل لابی کے تعلقات کے دعوے پر سیاست کر رہے ہیں مگر مسلم لیگ (ن)کے رہنمائوں نے جو موقف اپنایا اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عطاء تارڑ کی پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی وفاقی وزیر محترمہ شیری رحمن بھی موجود تھیں، دونوں رہنمائوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں جن خیالات کا اظہار کیا ان پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، یہ بھی کہا گیا کہ تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے اقوام متحدہ کے فورم پر اسرائیلی حمایت سے ثابت ہوگیا کہ9مئی کے واقعات کے پچیھے کون ہے، نیز یہ کہ پی ٹی آئی پاکستان مخالف قوتوں سے رابطے میں ہے۔ گو کہ ہمارے ہاں کی مروجہ سیاست میں اس طرح کی الزام تراشی عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ ابھی اڑھائی عشرے قبل تک مسلم لیگ (ن) کی قیادت پیپلزپارٹی کو سمندر برد کرنے میں اتاولی رہتی تھی۔ (ن) لیگ کی قیادت و ہمدرد اور ہم خیال میڈیا پیپلز پارٹی کو یہود و ہنود کا ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے تھے، بعد کے ماہ و سال نے ان نفرتوں کو کم کیا پھر میثاق جمہوریت ہوا اور ماضی میں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی یہ دونوں جماعتیں آج مخلوط حکومت کا حصہ ہیں، پاکستانی سیاست کا یہ بھی المیہ ہے کہ مخالفت برائے مخالفت کو کبھی ذاتی دشمنی کے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے اور کبھی مخالف کے لئے ہر وہ الزام استعمال ہوتا ہے جو مارکیٹ میں دستیاب ہو۔ ہماری دانست میں انسانی حقوق کونسل میں اسرائیلی نمائندے کی تقریر پاکستان کی مستقل بنیادوں پر اسرائیل دشمنی کی سیاست و سفارتکاری کے تناظر میں دیکھنے کی اشد ضرورت تھی اور ہے۔ اسرائیل ہمارے خطے میں بھارت کا نہ صرف پرجوش اتحادی ہے بلکہ دونوں کے درمیان دفاعی معاہدہ بھی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور اپنے بعض داخلی معاملات کی بدولت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، امریکی کانگریس کی انسانی حقوق کمیٹی سمیت دیگر فورمز پر سبکی سے دوچار ہیں، انسانی حقوق کونسل کے حالیہ اجلاس میں بھی بعض ممالک نے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کی نسل کشی اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اسے آڑے ہاتھوں لیا، کونسل کی ماضی کی کارروائیوں میں بھارت اور اسرائیل ہمیشہ یکساں موقف اپناتے دکھائی دیئے اس لئے مناسب ہوتا کہ اسرائیلی نمائندے کی تقریر اور پاکستان پر الزام تراشی کو بھارت اسرائیلی گٹھ جوڑ کی مشترکہ حکمت عملی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا۔ بادی النظر میں ایسا ہی لگتا ہے کہ انسانی حقوق کونسل کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کے موقف کی پذیرائی سے جس طرح بھارت کے دانت کھٹے ہوئے ہیں اسرائیلی نمائندے کی تقریر جوابی حکمت عملی کا حصہ ہے، اس سے ایک تو کونسل کے ارکان یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ جن دو ممالک کے آپس میں سیاسی و سفارتی مراسم ہی نہیں ان میں سے ایک نے دوسرے کی داخلی صورتحال کو ہدف ملامت بنایا ہے، دوسرا یہ کہ چونکہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اسرائیل نے سرکاری طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اس لئے معاملات کو دیکھا جائے، امر واقعہ یہ ہے کہ اس معاملے کو اس طور دیکھنے کی ضرورت نہیں جس طرح وفاقی وزراء اور مشیروں کا لشکر دیکھ اور بیان کر رہا ہے۔ لمحہ بھر کیلئے عمران اسرائیلی گٹھ جوڑ کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے دعوئوں کو مولانا فضل الرحمن کے الزامات سمیت درست بھی مان لیا جائے تو پھر کسی تاخیر کے بغیر ثبوت و شواہد سمیت معاملات عوام کے سامنے رکھنے کے علاوہ قانونی کارروائی کی جانی چاہئے، مثلاً یہ کہنا کہ اسرائیلی نمائندے کی تقریر سے عمران خان اور پی ٹی آئی کے لئے اسرائیل کی حمایت ثابت ہوگئی اور یہ بھی کہ9 مئی کے واقعات کے پیچھے کون ہے، کیا حکمران اتحاد یہ تسلیم کررہا ہے کہ ریاستی ادارے عمران خان اور پی ٹی آئی کے انتظامات کے مقابلہ میں بے بس ہیں؟ دوسری طرف ایک رائے بہرطور وہی ہے جس کی طرف بالائی سطور میں متوجہ کرتے ہوئے عرض کیا ہے کہ اسرائیلی نمائندے کی تقریر انسانی حقوق کونسل میں زیربحث آتے بھارتی مظالم و معاملات سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ یہ بجا کہ دفتر خارجہ نے اسرائیلی نمائندے کی تقریر کو مسترد کر دیا لیکن اگر اس پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، اولاً تو شق وار جواب دیا جانا چاہئے، ثانیاً دو باتوں کو خصوصی اہمیت دی جانی چاہئے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مذہبی اقلیتوں سے ناروا سلوک کو سیاسی جماعتیں اور خصوصاً حکمران اتحاد اگر اس پر سیاست چمکانے سے گریز کریں تو مناسب رہے گا، بلاشبہ اسرائیلی ریاست کو آئینہ دکھانے کی ضرورت ہے، یہ سوال بھی کونسل میں اٹھایا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی ریاست اپنے سیاسی و دفاعی اتحادی بھارت میں جاری انسانیت سوز مظالم، قبضہ گیری اور دوسرے معاملات سے چشم پوشی کیوں برتتی ہے، ہم بادیگر اس معاملے کو لے کر داخلی سیاست میں نفرت کی نئی فصل کاشت کرنے کو غیرضروری قرار دیتے ہوئے اس جانب توجہ دلانا ضروری خیال کرتے ہیں۔ چند نکات ایسے بہرطور ہیں جو فوری توجہ کے مستحق ہیں، مثال کے طور پر سخت گیر مذہبی حلقوں کی طرف سے دیگر مذہبی برادریوں کے معاملات میں دراندازی کی طرز کی مداخلت اور ان کے شہری و قانونی حقوق کو پامال کرنے کی روش، ثانیاً پاکستانی سوشل میڈیا پر موجود یہ تاثر کہ پاکستان اقلیتوں اور خواتین و بچوں کیلئے غیرمحفوظ ملک ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاثر کو دور کرنے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں نہ کہ اسرائیلی نمائندے کی تقریر سے مروجہ سیاست میں الزامات کی نئی گندگی پھینک کر جی بہلایا جائے۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری