کچھ عام انتخابات کے حوالے سے

جمہوریت کے فروغ میں انتخابات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اپنے مقررہ وقت پہ منصفانہ انتخاب کے ذریعے ایک بہتر قیادت کرنے والے آگے آتے ہیں ۔ اگرچہ ہمارے ہاں انتخابات کی تاریخ بڑی کربناک ہے ، اس کا نتیجہ ہمیشہ جیت یا دھاندلی کی صورت میں نکلا ہے ۔ خیر سے یوں بھی یہاں انتخابات میں تولے جانے والوں کے مقابلہ میں گنتی کیے جانے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی ہے ، انہیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور وہ کیا کرنے آئے ہیں ۔ اب تو ایک اکثریت کو انتخابا ت میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ، بھلے ہوں یا نہ ہوں کہ مُلک میں حالات ِ حاضرہ جوں کے توں ہیں ۔ اس کے باوجود سب جانتے ہیں کہ معاشی و سیاسی لحاظ سے مستحکم اور مکمل آئینی و جمہوری پاکستان ہی ان کی محفوظ پناہ گاہ ہے ۔ اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نگران حکومتیں کا م کر رہی ہیں جبکہ مرکز اور باقی دو صوبوں میں منتخب حکومتوں اور اسمبلی کی آئینی مدت اگست میں ختم ہو رہی ہے ۔ اہل فکر اور اہلیان سیاست کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے کہ کیا انتخابات کا انعقاد اپنے وقت پر ہو گا یا تاخیر کی جائے گی ۔ کہیں بھی چلے جائیں ، چاہے سیاسی مبصرین کا حلقہ ہو ، اہل سیاست کے قریبی ذرائع ہوں ، سیاسی وابستگی رکھنے والوں کی مجلس ہو ، بس مختلف مفروضے ہی گردش کر رہے ہیں ۔ حکومت میں شامل چند سیاسی جماعتوں کے قائدین تو کہہ رہے ہیں کہ اگست میں نگران وزیر اعظم کی تعیناتی ہو جائے گی لیکن کچھ باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ نگران تین ماہ کے لیے نہیں ، اپنی آئینی مدت سے زیادہ وقت تک براجما ن رہیں گے ۔ لندن اور دوبئی میں سیاسی بڑوں کی حالیہ ملاقاتوں سے بھی لوگ یہی بحث کر رہے ہیں کہ انتخابات میں کون کس کا ساتھ دے گا اور مُلک کا وزیر اعظم کون منتخب ہو گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ کابینہ کے ارکان کی یہ باتیں بھی سننے میں آئیں کہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی کو سال بھر کے لیے توسیع دی جا سکتی ہے، ایسے میں حکومت آئی ایم ایف کے پیکج کو نو ماہ میں مکمل کر کے مُلکی معیشت میں بہتری پیدا کر سکتی ہے۔ یہ بھی المیہ ہے کہ ایسی کوئی سیاسی قیادت موجود نہیں جو ایک جامع منشور اور سیاسی بالغ نظری رکھتے ہوئے مُلک میں جاری حالات ِ حاضرہ کی تبدیلی کو یقینی بنائے تا کہ عوام کی ایک اکثریت کو مہنگائی ، نا انصافی، بے روزگاری اور لا قانونیت سے نجات ملے ، اُنہیں بنیادی سہولتیں میسر ہو ں، مُلک صحیح طور پہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے ۔ بدقسمتی سے تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں عوام کا اعتماد کھو چکی ہیں ، سب نے عوام کو مایوس کیا ہے ،غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر ہمیشہ اقتدار تک رسائی حاصل کی جبکہ تبدیلی کے نعرے محض نعرے نکلے اور حالات ِ حاضرہ کو نہ بدل سکے ۔سیاسی جماعتوں کے غیر جمہوری روئیوں اور محض اقتدار پرستی کی سیاست نے ہی مُلک میں عدم استحکام پیدا کیا ہے ، ان سیاسی جماعتوں نے کبھی یہ سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ مل بیٹھ کر ایک جامع سیاسی و معاشی میثاق پر مکالمہ کریں ۔ آئین کے مطابق تمام اداروں کو محدود رکھا جائے اور اپنے وقت پرشفاف و غیر جانبدار انتخاب کا انعقاد یقینی بنائیں ۔ ماضی میںمُلک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ‘میشاق جمہوریت’ ترتیب دے کر دستخط کیے اور اس کی تمام اہم شقوں پر عمل کرنے کا عہد کیا ۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ جن غیر جمہوری قوتوں کے شر سے جمہوریت کو بچانا تھا ، آج سیاست پر وہی قوتیں غالب ہیں اور جماعتیں اقتدار کے لیے اُنہی کے سہارے کی محتاج رہتی ہیں ۔ اسی میثاق کی ایک شق یہ بھی تھی کہ ایک قومی جمہوری کمیشن بنایا جائے جس سے مُلک میں جمہوری کلچر کو فروغ ملے لیکن ایسا کمیشن نہ بن سکا بلکہ اُلٹا جمہوریت کی بیخ کنی ہوتی رہی ، یہاں تک کہ ایک سیاسی جماعت کی قائد نے جان کا نذرانہ دیا اور دوسرے سیاسی رہنما کو عدالت نے سیاست سے تا عمر نا اہل قرار دے دیا ۔ ایک سیاسی عمل تو جاری رہا مگر میثاق پر عمل نہ کرنے سے جمہوریت توانا نہ ہو سکی ۔ آج حالت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کے پاس جانے سے گھبرا رہی ہیں اور آئین کے مطابق بر وقت انتخاب سے بھی اجتناب برت رہی ہیں ۔ اقتدار کو طول دینے کی تاویلیں ڈھونڈی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی بیساکھی کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ کسی سیاسی کھلواڑ ، کسی کی غیر آئینی سر پرستی ، انتظامیہ کی غیر قانونی معاونت اور اوچھے ہتھکنڈوں کی انتخابی مہم جوئی کے بارے منصوبہ بندی کی بجائے اہل سیاست کو عوام کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے کہ وہ اپنے نمائندوں کے چناؤ میں پورے انتخابی نظام سے مطمئن ہوں ۔ ایک ایسی قیادت کا انتخاب عمل میں آئے کہ جسے بعد میں سلیکٹیڈ اور امپورٹیڈ کے نام سننے نہ پڑیں ۔ انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا ہے ، ایک نئی جماعت بھی میدان میں ہے جسے اقتدار پرست ہم خیال نئے بیانیہ کے ساتھ متعارف کرا رہے ہیں اور پرانی سیاسی جماعتیں موجودہ اقتدار کے اتحاد سے ہٹ کر اپنی اپنی جیت کی کوشش کر رہی ہیں ۔ ایک سیاسی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر اس کے قائد اب بھی عوامی مقبولیت رکھتے ہیں ، اس کے خلاف کرپشن کے مقدمات ہیں اور ایک موثر حلقے کا خیال ہے کہ جب تک ان مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو جاتا یا کوئی منطقی انجام سامنے نہیں آتا تب تک انتخاب کا انعقاد بے معنی سا ہو گا ۔ مُلکی سیاست پہ گہری نظر رکھنے والے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے قائد اور تحریک انصاف کے قائد کو اس انتخاب سے باہر رکھنا کسی طور پر مناسب نہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گا جس سے معیشت اور سلامتی کے معاملات بگڑتے ہی رہیں گے ۔ یوں بھی نئی منتخب ہونے والی حکومت کو معیشت کی بحالی اور مُلکی صورتحال کی بہتری میں درپیش بہت سی مشکلات پر قابو پانا ہو گا ۔بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو من پسند سیاسی منظر نامے کے تعین اور حالات کو ساز گار بنانے میں آسانیاں حاصل ہیں مگر کسی بھی حوالے سے انتخابات کا التوا سیاسی اعتبار سے ان کے حق میں نہیں ۔ کسی بھی عوامی مزاحمت کا سامنا کرنے سے بہتر ہے کہ جمہوری نظام کے تسلسل اور عوامی حمایت کے لیے بر وقت انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے کہ اسی میں سب کی جیت ہے ۔

مزید پڑھیں:  ملک چلے گا کیسے؟