وزیر دفاع کا اعتراف؟

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ٹی ٹی پی کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کئے جانے پر افغانستان کو مؤثر جوابی کارروائی کی وارننگ کے بعد اب وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی اسی قسم کی صورتحال پر مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو پاکستان میں بسانے کی اجازت دینا سنگین غلطی تھی۔ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ موجودہ صورتحال نے افغان مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات کے بارے میں اہم خدشات کو جنم دیا ہے۔ پاکستان اس سے قبل بھی افغان مہاجرین کو پناہ دینے اور میزبانی کے نتائج بھگت چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے اندر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی اور ان کی نقل و حرکت کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے دور میں سنگین غلطیاں کیں، ریاست کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا اور تین لاکھ سے زائد لوگوں کو یہاں لاکر بسایا گیا جبکہ پانچ لاکھ افغان تارکین پہلے ہی سے پاکستان میں موجود تھے۔ اس سے پہلے وزیر دفاع نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا تھا کہ افغانستان دوحہ معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہا اور نہ ہی ہمسایہ برادرملک ہونے کا حق ادا کر رہا ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ جو مکا جنگ کے بعد یاس آئے اسے اپنی ہی منہ پر مارنا چاہئے۔ بدقسمتی سے افغانستان کی ہمسائیگی کے حوالے سے اس قسم کے مکے قیام پاکستان کے وقت ہی سے ہمیں بعداز وقت یاد آتے ہیں کیونکہ قیام پاکستان کے بعد افغانستان وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تھا، اس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں کشیدگی اور مخاصمت کی ایک لمبی تاریخ ہے جبکہ ریڈیو کابل سے پاکستان کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ شروع دن سے ہی کیا جاتا رہا، اس صورتحال سے بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان مخالف جذبات بھڑکانے کیلئے لانچنگ پیڈ بناکر رکھ دیا۔ افغانیوں کے ذہنوں میں پاکستان دشمنی کا بیج بویا اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کئی بار کشیدہ ہوئے تاہم باہمی تعلقات پر دھوپ چھائوں کی صورتحال اس وقت تبدیل ہوئی جب افغانستان میں انقلاب ثور کے بعد وہاں کمیونسٹوں کی حکومت کے اندر باہمی جھگڑوں نے حالات اس قدر ناگفتہ بہ کر دیئے کہ سابق سوویت یونین کو اپنے اندرونی حالات میں مداخلت کی دعوت دیتے ہوئے ببرک کارمل سوویت ٹینکوں پر سوار ہوکر ”فاتح کابل” کی شکل میں وارد ہوا اور لاکھوں افغان مہاجرین نے جان بچانے کیلئے ہمسایہ ممالک کا رخ کیا، ان مہاجرین کی غالب اکثریت پاکستان منتقل ہوئی اور امریکی آشیرباد سے اس وقت کی پاکستانی قیادت نے امریکہ کی پراکسی وار لڑنے کیلئے ”جہاد” کا آغاز کیا، اس موقع پر بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ جہاں ایران نے نقل مکانی کرنے والے افغان مہاجرین کو عالمی قوانین کے مطابق مہاجر کیمپوں میں آباد کیا اور ان کی نقل و حرکت کو قاعدے قانون کے تابع کرتے ہوئے ان کیمپوں سے ضروری کام کاج کیلئے صبح جاتے ہوئے پرمٹ جاری کئے جاتے رہے جن کے تحت شام کے مقررہ اوقات کے اندر اندر واپس کیمپوں میں حاضری لگوانے کا پابند کیا، وہاں آمر ضیاء الحق کے احکامات کے تحت پاکستان میں ان مہاجرین سے کسی باز پرس کا پابند نہیں بنایا گیا بلکہ جب ان کے حوالے سے پاکستان کے قوانین کی دھجیاں اڑانے کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں تو متعلقہ سکیورٹی اداروں کو ان سے کوئی تعرض نہ رکھنے کی ہدایات جاری کی گئیں، اس کے بعد ان مہاجرین نے پاکستان میں جو ہلڑبازی مچائی وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ان کے جرائم کی تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ یہ سب کچھ جانتا ہے۔ جرائم کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت کو جتنی زک ان لوگوں نے پہنچائی ہے اس کے نتائج خصوصی طور پر خیبرپختونخوا کی تاجر برادری کو بھگتنا پڑے ہیں، ان مہاجرین کی ناکردنیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے اس لئے پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام نے عمومی طور پر اور خیبرپختونخوا کے ہر طبقے نے خصوصی طور پر ان کو مزید پاکستانی معاشرے پر مسلط رکھنے کی شدید مخالف کرتے ہوئے ان کو واپس اپنے وطن بھیجنے کے مطالبات کئے ہیں مگر حیرت اس بات پر ہے کہ جب بھی ان کے قیام کی مدت اختتام کو پہچنتی ہے یو این ایچ سی آر کے حکام ان کے قیام میں مزید توسیع کیلئے نہ صرف سرگرم ہو جاتے ہیں بلکہ پاکستان میں جو بھی حکومت ہو وہ خاموش رہ کر انہیں مزید مہلت عطاء کردیتی ہے، موجودہ اور سابق حکومتوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں رہی کہ یہ لوگ پاکستان کیلئے کیا مسائل کھڑے کرتے رہتے ہیں، اب چند روز پہلے ہی ایک بار پھر افغان مہاجرین کو قیام کی مزید مہلت دے کر اگر وزیر دفاع افغان مہاجرین کو پاکستان میں بسانے کی اجازت دینے کو سنگین غلطی قرار دے رہے ہیں تو یہ جنگ کے بعد یاد آنے والا مکا ہی ہوسکتا ہے جسے اپنے ہی منہ پر مارنے کا محاورہ اپنے اندر ”عقل مندرا اشارہ” کے مصداق ہے، اس لئے جن لوگوں نے انہیں لاکر بسانے کی غلطی کی ہے ان کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو