صوبے میں نئی سیاسی جماعت کا جنم

خیبرپختونخوا میں سابق وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے پی کے سابق صدر کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرینز کا قیام اور اس میں ایک اور سابق وزیر اعلیٰ کے ساتھ سابق صوبائی وزراء اور اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کی شمولیت سے صوبہ پنجاب کے بعد خیبر پختونخوا میں بھی سیاسی تقسیم مزید گہری ہوگئی ہے نوزائیدہ جماعتوں کا قیام و تشکیل اور سہولت کاری بارے معاملات کوئی راز کی بات نہیں ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ بلوچستان طرز کا فارمولہ مستعمل ہے اور مرکزی سطح پر بڑی سیاسی جماعتوں کو کسی چیلنج سے دو چار نہیں ہونا پڑے گالیکن پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں ان جماعتوں کوجس انتخابی وعوامی چیلنجز کا سامنا ہونا متوقع ہے اس بارے ابھی تک کوئی کارگر فارمولہ سامنے نہیں آیا صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ نے معدودے چند کے علاوہ تمام نشستوں پر بھر پور الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے سندھ پہلے ہی سے پیپلزپارٹی کے پاس چلا آرہا ہے بلوچستان میں ہر دفعہ کھچڑی ہی پکی رہتی ہے اب خیبر پختونخوا میں بھی شاید کھچڑی ہی پکے گی پیش نظر حالات میں خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی عوامی حیثیت کے باوجود بھی سیاسی تقسیم میںوسعت کے باعث کسی بھی جماعت کی کلی کامیابی و حکومت سازی کے امکانات معدوم نظرآتے ہیں اور چارہ دستوں کی بھی شاید یہی خواہش ہوگی پرویز خٹک ایک زیرک اور مرغ بادنما وجغاری سیاستدان ہیں لیکن سیاسی میدان میں ہر وقت کسی ایک کا سکہ نہیں چلتا اور ستارہ اگر غروب نہیں بھی ہوتا تو ٹمٹماتا ضرور ہے بہرحال ہر بار قیامت کی چال چلنے والے اور جوڑ توڑ کے ماہر سیاستدان کو اب بطور قائد ایک ایسا چیلنج درپیش ہے جس میں نیا پار یقینی نہیں اور ایسا ہونے کی کئی وجوہات ہیں البتہ انہونیاں ہونے لگیں تو اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں دوبار بطور وزیر اعلیٰ حکومت کرنے والوں کی ابتلاء کے دور میں اپنی جماعت سے راہیں جدا کرنے والوں کو عوام کس نظر سے دیکھتے ہیں اس کا اندازہ انتخابی جلسوں سے ہی ہونا شروع ہوجائے گا۔اپنی حکومت کے دوران جتنے بڑے جلسوں سے ہر دو وزرائے اعلیٰ خطاب کرتے آئے ہیں جتنا جلد ہوسکے اپنی عوامی مقبولیت ثابت کرنے کے لئے اب ان کو ان اجتماعات سے زائد نہیں تو کم ازکم ان کے ہم پلہ عوامی طاقت کا مظاہرہ ہی صوبے میں ان کی نوزائیدہ جماعت کو مضبوط رونمائی فراہم کرسکتا ہے اس کے بغیر شادی ہال میں بننے والی سیاسی جماعت ولیمہ کھانے والے ہجوم کی حد تک ہی جماعت کہلائے گی ماضی کے پی پی پی پارلیمنٹرینزکے طرز کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرینزکا اگرچہ قیام بھاری بھر کم نظر آیا لیکن فہرست میں شمار آٹھ رہنمائوں کی لاتعلقی سے واضح ہے کہ اس ضمن میں قلبی مشاورت و شمولیت نہ ہونے کے باعث اعتماد کی کمی ہے اب مزید بیس ارکان اسمبلی کی ممکنہ مشاورت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور مزید عدم اعتماد کی کیا صورتحال پیدا ہوتی ہے ہر دوکے امکانات پارٹی کے اعلان کے دن سے ہی بڑھ گئے ہیں گرفتار اور روپوش رہنمائوں کا تقریب میں پہنچنا کسی اچھنبے کی بات نہیںسوات کے اراکین اسمبلی کی سوات کے سابق وزیر اعلیٰ سے قلبی تعلق اور اعتمادکاامتحان اس دن ہو گا جب جن کی سفارش پرتحریک انصاف کے قائد نے ان کو غیرمتوقع طور پر وزیراعلیٰ نامزد کیا تھا وہ روپوش شخصیت جن کی مقبولیت پی ٹی آئی میں عمران خان کے بعد دوسرے نمبرپر ہے سوات میں عوام میںنمودار ہوں گے ۔ شنید ہے کہ ان کو ہر قسم کے سخت سے سخت حالات کے باوجود مزید چند ماہ روپوشی کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے ۔سیاست میں باکسنگ کی طرح مکمل ناک آئوٹ نہیں ہوتا بازی پلٹتی ہے اور ترجیحات میں تبدیلی لانا ضرورت بن جاتی ہے اس لئے نوزائیدہ سیاسی جماعتوں کو اس کے لئے خود کومضبوط کرنے اور تیار رہنے کی ضرورت ہوگی۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے صرف مسلم لیگ (ق) اور ”باپ”کی خاتون رہنما کے علاوہ کسی بھی قابل ذکر سیاسی شخصیت اور کارکنوں نے شمولیت نہیں کی ان دو افراد کی شمولیت بھی ٹریفک کے سگنل کے اشارے کی طرح ہے اس طرح کے اشارے خیبر پختونخوا کے باغی صفت معاشرے میں مثبت کی بجائے منفی سیاسی تاثرات کاباعث ہوناعجب نہ ہوگا۔ان تمام حالات و واقعات سے قطع نظر یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈائون کا نتیجہ کیا نکلتاہے اور نگران حکومت کے قیام کے بعد طاقتور سیاسی حقیقتیں کس طور پرسامنے آتی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں نوزائیدہ سیاسی جماعت اراکین اسمبلی کی ایک خاص تعداد کے ساتھ رونمائی کے باوجود کوئی بڑاشو پیش نہ کرسکی۔سیاسی اونٹ کی کروٹ کا عمران خان کے حشر کے بعد ہی متعین ہوسکے گا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سابق وزیر اعظم نمایاں طور پر کمزور ہونے یا کمزور کئے جانے کے باوجود مقبولیت اور حمایت سے محروم نہیں ہوئے آنے والے دنوں اور مہینوں میں بہت کچھ واضح ہوجائے گا اس وقت تک سیاسی شراکت داران اپنے انتخابی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عام انتخابات سے قبل مختلف منظر ناموں اور امکانات کاجائزہ لیں گے اور سیاسی صورتحال کارخ متعین ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ہند چین کشیدگی