مُلک میں عوامی جمہوری انقلاب سے گریز

زمانہ طالب علمی کے دوران ترقی پسندانہ سوچ اور سوشلزم کے حامی ہمارے چند اساتذہ کرام انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں ہر پندرہ روز بعد ایک علمی ، فکری اور ادبی نشست کا اہتمام کیا کرتے ۔ مَیں بھی اپنے ہم خیال دوستوں کے ہمراہ اس محفل میں شریک ہوتا ۔ وہ اس کرہ ارض پر ان سماجی و معاشرتی نظاموں کا تجزیہ کرتے جس نے انسانی زندگی کو متاثر کیا ۔ وہ زیادہ تر سوشلسٹ نظام کو اپنا موضوع بنائے رکھتے اور مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ۔ یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب سال 1977میں ایک جمہوری حکومت کے خاتمے پر پاکستان مارشل لا کی زد میں تھا ۔آج مُلک میں سیاسی عدم استحکام اور سرمایہ داری نظام میں معاشی بحران کے پیش نظر اپنے اساتذہ کی باتیں یاد آ رہی ہیں جو اکثر کہتے کہ طبقاتی سماج میں جمہوریت کی نوعیت طبقاتی ہی ہو سکتی ہے ۔ وہ یہ دعویٰ کرتے کہ پاکستان میں قومی جمہوری انقلاب یا عوامی جمہوری انقلاب برپا کرنے کی اہلیت نہیں ، یہاں کا سرمایہ دار طبقہ سامراج کے خلاف کسی حتمی فیصلہ کن لڑائی لڑنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہے ۔ بلکہ تیسری دنیا کے سب ممالک امریکی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتے اور ہماری معیشت پر ان کی یہ بالادستی قائم رہے گی ۔
آج کے دور میں انسانی سماج کو ترقی دینے اور انسان کے معیار زندگی کو بہترکرنے کے لیے استعمال میں لائے جانے والے تمام ممکنہ وسائل پر سامراج کی اجارہ داری ہے ۔ اس اجارہ داری کو اس وقت تک کیسے توڑا جا سکتا ہے جب تک مقامی استحصالی قوتوں ، رجعتی سیاسی جماعتوں ، مفاد پرست سرمایہ دار طبقے اور استبدادی ریاستی ڈھانچے کی گرفت سے آزاد ی نہ ملے ۔ یہاں مُلکی ترقی اور عوام کی بہتری کے لیے تبدیلی کے نعرے سنے ، لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کے خلاف احتساب کا بیانیہ عام ہوا ، نام نہاد انصاف کی نوید دی گئی اورخود ساختہ سوشلسٹ رہنماؤں نے مساوات کا پرچار کیا لیکن عوام حالاتِ ناہموارکا رونا ہی روتے رہے ۔ اول تو ہمارے ہاں کسی جماعت کا کوئی منشور ہی نہیں مگر جب عوام کا سامنا کرتے ہیں تو پھر سب کا ایک ہی بیانیہ ہوتا ہے کہ وہ سوشل جمہوریت کے علمبردار ہیں اور عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ان کی یہ سوشل ڈیمو کریسی بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی کی ایک شکل ہے ۔ یہ جمہوریت ، انقلابی لفاظی سے بھر پور مگر انقلابی عمل سے خالی ہے ، بس لوگوں کو انتظار اور پُرامن طریقہ سے تبدیلی کے لیے جد وجہد کی جانب دھکیل دینے میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوتے ہیں ۔ عوام نے تو ہر موقع پر بنیادی سماجی تبدیلی اور استحصالی نظام کو بدلنے کے نعروں کو اپنی جد وجہد کی منزل تصور کیا، اُنہوں نے ہمیشہ اپنے قائدین کی آواز سے آواز ملانے کو ضروری سمجھا اور باہر نکلے ۔ افسوس اس امر کا ہے کہ رہنما مصالحت کا شکار ہوئے اور اکثر رہنماؤں کو یہ کہتے بھی سنا کہ عوام موقع پر ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور باہر نہیں آتے ۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا اہم باب ہے کہ ڈکٹیٹر ضیاء کے جبر اور تشدد کی نفی کرنے والے سولہ کارکن پھانسی چڑھ گئے ، ساٹھ ہزار کارکنوں نے کوڑے کھائے جن میں دس سیاسی کارکنوں کو مَیں نے قذافی سٹیڈیم لاہور میں کوڑے کھاتے ہوئے دیکھا اور تین لاکھ افراد نے جیلوں میں قید کے دوران بیڑیاں پہنیں اور بہت سے بد قسمت اپنے والدین کے آخری دیدار سے بھی محروم رہے ۔ ہر دور میں عوام لاکھوں کی تعداد میں اپنے سیاسی رہنماؤں کے استقبال اور جلسہ جلوس میں شامل ہوئے ، کیا یہ عوامی پذیرائی کسی بھی رہنما سے ڈھکی چھپی ہے لیکن رہنماؤں کی مصالحتی چال ، اسمبلیوں سے فراراور اقتدار کی ہوس میں گٹھ جوڑ نے سیاسی کارکنوں کی حوصلہ شکنی کی اور عوام میں مایوسی پھیلی ۔ عوام تبدیلی چاہتے ہیں یکسانیت نہیں ، عوام کسی کے احتساب میں نہیں بلکہ انقلابی اقدامات میں دلچسپی رکھتے ہیں ، عوام خوشحالی اور بہتر معیار زندگی کے خواہاں ہیںجبکہ انہیں بد حالی ، افلاس اور بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اسی طرح سیاسی کارکنوں کا پارٹی میں گھسے ہوئے بکاؤ اور سودے بازی کرنے والے الیکٹ ایبل سے واسطہ ہے جبھی تو جمہوری انداز میں ذہن سازی کی بجائے کارکنوں میں اشتعال انگیزی ، ہلڑ بازی اور گالم گلوچ کو فروغ حاصل ہوا ہے ۔ ان سودے بازی کرنے والوں سے کسی عوامی جمہوری انقلاب کی کیا توقع ہو سکتی ہے جو ہر میٹنگ اور پریس کانفرنس میں محض لفاظی ، جعلی نعرے بازی، مخالفین کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے اور عوام کو طفل تسلی دیتے رہتے ہیں ۔ اسی باعث تو اب تمام سیاسی جماعتوں ، ان کے رہنماؤں اور کارکنوں کی حالت دیدنی ہے کہ سب لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ توکر رہے ہیں مگر اصل میں وہ ” لاڈلہ ” بننے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ کیا اُنہیں خبر نہیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہوا ، یا کیا ہوگا ۔ مجھے ایک کہاوت یاد آئی کہ مویشیوں کا ایک تاجر کچھ بیلوں کو ہانک کر ذبح خانے لایا ۔ جب قصاب اپنی چھری لے کر ان کے قریب پہنچا تو ایک بیل دوسرے سے کہنے لگا ، ” آو ٔ اپنی صفیں باندھ لیں اور اس قاتل کو سینگوں پر اُٹھا لیں ۔” باقی بیلوں نے جواب دیا ہمیں یہ تو بتاؤ کہ قصاب ہمارا بڑا دشمن کیسے ہوا ؟ ہمارا اصل دشمن تو وہ تاجر ہے جو ڈنڈے کے زورپر ہمیں یہاں لایا ہے ۔ پہلے بیل نے کہا کہ ہم بعد میں اس تاجر سے بھی نپٹ لیں گے لیکن دوسرے بیلوں نے اتفاق نہ کیا کہ تم ہمارے اصل دشمن کو بچانے کی کوشش کر رہے ہو بلکہ تم خود بھی ایک سوشل قصاب ہو ۔ یوں اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے صفیں باندھنے سے انکار کر دیا ۔ آخر وہی ہوا کہ سب قصاب کی چھری کے شکار ہو گئے ۔ ہمارے اساتذہ کرام کی بات درست تھی کہ قومی یک جہتی کے ذریعے قومی و ریاستی جبر کے خاتمے ، تمام قومیتوں کو خود مختاری دینے ، درمیانہ طبقہ کے بنیادی مسائل حل کرنے ، کسانوں اور صنعتی مزدور طبقہ کو محنت کا صحیح صلہ ادا کرنے ، جمہوریت دشمنوں کے خلاف ڈٹ جانے ، کارکنوں کی سیاسی تربیت کرنے اور کسی سیاسی و سماجی نظریہ کے بغیر مُلک میں عوامی جمہوری انقلاب کے فرائض کی ادائیگی ممکن نہیں ۔ چند افراد کے شکنجے میں سیاسی جماعتوں سے ہمیں یہ توقع ہرگز نہیں ۔
٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز