”مسائل نہیں ان کے حل کی بات کرو”

اگر یہ پوچھا جائے کہ دنیا میں سب سے زیادہ مشکل کام کیا ہے تو یہ کہا جائے گا کہ نفس کی دیونما قوت کو مفتوح اور مہذب بنا کر اسے آللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں دینا،یہ ایسا کام ہے جو سارے کاموں پر بھاری ہے۔چونکہ معاشروں کی بقاء کا سارا تعلق نفس کو حد اعتدال میں رکھنے سے وابستہ ہے۔ملت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس سے نفس کی دیونما قوتوں کو مفتوح کیا جاسکے اور اس کے مکر وفریب اور طاقتور فسادی جراثیم سے معاشرے کو بچایا جائے۔ملت اس وقت اخلاقی طور پر جس تنزل کا شکار ہے،معاشرے میں ہر طرح کے جراثیم جس تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں،یہ صورتحال ایسی ہے جس پر ہر درد مند فرد قوم کے مستقبل کے بارے میں سخت متفکر ہے۔ضرورت ہے کہ بلا تاخیر انفرادی اور اجتماعی طور پر نفس کو مہذب بنانے کا عمل شروع کیا جائے۔پاکستان کی تین چار نسلوں کی ذہنی نشوونماء بے مقصد بلکہ فاسد نصب العین یعنی دولت سے محبت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔جب قوم کا مؤثر اور مقتدر طبقہ اور ہر شعبہ کی قیادت دولت کی محبت کی مریض ہو جائے تو اس ملت کی زندگی میں جتنا بھی فساد برپا ہوجائے،کم ہے۔ہمارے سیاستدان اپنی ساری توانائیاں سیاست پر صرف کر رہے ہیں اور سیاست سے مقصود اقتدار کا حصول ہے اور اقتدار سے مقصود زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہے،اس کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دولت کا ارتکاز چند طبقات کی طرف ہوتا ہے ،عوام محتاج بن کر رہ جاتے ہیں اور دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دولت کی کثرت کی وجہ سے افراد میں شان بے نیازی یعنی تکبر پیدا ہوجاتا ہے۔جدید انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے مادیت پرستی کے عالمگیر اثرات سے بچا کر،اس کے تزکیہ نفس کی صورت کیا ہو اور اس کی تعمیر سیرت کیسے ہو،یہ جدید انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔یہ ایسا منظر ہے جس کا مشاہدہ ہم پچھلے ساٹھ ستر سال سے دیکھ رہے ہیں۔آج پاکستانی ملت کی جو حالت ہے یہ ایک دو سال کی غلطیوں اور حماقتوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ مقتدر مؤثر طبقات کی ستر سالہ قوم فروشانہ کردار کا نتیجہ ہے۔
مغرب نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہماری نسلوں کو اپنی فکر سے ہمہ ہنگ کرنے،اپنی پاکیزہ تہذیب سے بغاوت کی راہ پر گامزن کرنے اور دنیا کو مقصود بنانے کی راہ پر لگایا ہے۔دجالی تہذیب عروج پر ہے۔ ہر گھر میں سوشل میڈیا جو دجال کے طاقتور آلہ ثابت ہونگے وہ لوگوں کے گھروں اور جیبوں تک پہنچ چکے ہیں،دور دراز کے گاؤں اور دیہات میں چرواہے کے پاس بھی موجود ہے وہ بڑے ذوق وشوق کے ساتھ دجالی تہذیب کے مادی حسن کے مناظر دیکھنے میں مصروف ہوتا ہے۔پورے پاکستان میں سالانہ دس ہزار سے زائد لوگ خود کشی کرتے ہیں وہ سب کسی خاص فرقے کے نہیں بلکہ تمام مسلم فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ دنیا کے تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک میں یکساں خود کشیاں ہوتی ہیں۔پٹرول اور ڈالر کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ کے علاوہ کرپشن نے ہمارا جو حال کیا ہے،اسی طرح ہمارے ہاں سکولوں اور گھروں میں بھی ماحول تھانوں سے مختلف نہیں ہے۔موجودہ حالت میں ریاست اور ملت کو دجالی تہذیب کے ہولناک منفی اثرات سے بچانا تو دشوار تر ہے،ان حالات میں اپنے ایمان کی سلامتی کی فکر ہونی چاہئے۔نفس کی یہ خرابیاں ایسی ہیں جو ہر سطح کے لوگوں میں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اداروں ،جماعتوں،اور قومی سطح کا نقصان ہوتا ہے۔اگر ہمارا اخلاقی اور روحانی تربیت کا نظام بہتر ہو جائے اور اسلام سے ہم آہنگ ہو جائے تو ہمارے حالات میں بہت زیادہ بہتری آسکتی ہے۔ہماری حالت زار میں بظاہر جو اسباب کار فرما ہیں وہ کچھ اس طرح کے ہیں ۔ رشوت اور لوٹ مار کا بڑھنا،انتظامیہ اور پولیس کا مال کمانے کی خاطر لوگوں کو مصائب میں مبتلا کرنا،انصاف کے نظام کا پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہونا،اہل سیاست کا مستقل طور پر ایک دوسرے سے لڑتے رہنا اور حکومت کو کام نہ کرنے دینا۔
سیاستدانوں پر ملک وقوم کی خدمت کی بجائے مال کمانے کی فکر کا غالب ہونا،صنعتکاروں کی طرف سے ٹیکس کی کم سے کم ادائیگی کا ہونا،عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعہ سودی قرضہ سے ملک کے نظام کو چلانا،مہنگائی کا مستقل بڑھتے رہنا،بدامنی اور چوری وڈاکہ زنی کی واردات کا بڑھتے رہنا، ڈاکڑوں ،وکیلوں،اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے اخراجات کا عام لوگوں کی برداشت سے باہر ہونا،میڈیا کی طرف سے سنسنی خیزی پھیلا کر منفی نوعیت کی ذہن سازی کرنا،کوئی قانون ایسا نہیں ہے جو ان خرابیوں کو دور کرکے ملت کی حالت میں بہتری کی صورت پیدا کرسکے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکیزہ ،اخلاقی،اور روحانی تربیت انسان کو انسان بنانے اور صحیح نصب العین پر چلانے کے لیے ضروری ہے،اس کے بغیر قوموں پر مادیت کا جنون سوار رہتا ہے اور مادیت کے اس جنون سے جتنے بھی مسائل ،مشکلات اور مصائب پیدا ہوں،کم ہیں۔جو قومیں پاکیزہ اخلاقی اور روحانی نظام کے بغیر اپنا نظام تشکیل دیتی ہیں وہ سنگ دلی وقساوت قلبی کا شکار ہوتی ہیں ،وہ حساسیت اور انسانی درد سے محروم ہوتی ہیں،ایسی قومیں قدرت کے قانون مکافات کی زد میں آ کر زندگی اور موت کے سے مسائل سے دوچار ہوتی ہیں۔قدرت طرح طرح کی دباوں اور آپس میں تصادم کے ذریعہ سزا دے کر انہیں سنبھلنے کا موقع دیتی ہے اگر اس کے باوجود وہ نہیں سنبھلتی تو پھر انہیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے۔جب تک ملت کی پاکیزہ بنیادوں پر تربیت کا کام نہ ہوگا،پاکستانی ملت زبوں حالی کا شکار رہے گی اور قومی زندگی اور ریاست کا ہر شعبہ فساد کا منظر پیش کر ے گا۔
پاکستانی ملت آج کل جس بحران میں مبتلا ہے، اس سے نکلنے کی صورت ایک ہی ہے کہ کائنات کے سارے وسائل کی خالق ،مالک،اور محسن ہستی سے محبت کا تعلق قائم کیا جائے،قوم کو ہر سطح پر یہی پیغام دیا جائے کہ غیروں کی غلامی سے بچنے اور غیروں کے افکار کی تقلید کرنے اور ان کے معاشی نظریات کو اختیار کرنے کی بجائے اللہ کے دیئے ہوئے نظام زندگی کو اختیار کیا جائے لیکن بدقسمتی سے ہم اس طرح کی سیاسی،تعلیمی،اور انتظامی قیادت وغیرہ وغیرہ سے محروم ہیں۔ہمارا تربیتی نظام جو صدیوں سے آللہ سے محبت کی بنیادوں پر ہماری تربیت کا کردار ادا کرتا تھا بد قسمتی سے مادیت پرستی کی ہمہ گیر طوفانی لہروں کی وجہ سے جدید طبقات کا اس کی طرف رجوع نہ ہونے کے برابر ہے،لگتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اللہ سے سرکشی کی وجہ سے اللہ کے عتاب کی زد میں ہیں ، انسانیت اس وقت دوراہے پر کھڑی ہے اس لیے کہ وہ فطرت سے ہمہ آہنگ پاکیزہ نصب العین سے محروم ہے۔ان حالات میں اپنے ایمان کی سلامتی کی فکر ہونی چاہئیے،دوست واحباب میں سے جس کو بھی اس تہذیب کے سحر سے بچایا جاسکتا ہے،بچانا چاہئیے اس دور کا سب سے بڑا جہاد یہی ہے۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟