خیبر پختونخوا کامقدمہ

خیبر پختونخوا کے عوام کے ساتھ گزشتہ کئی برس سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا اگر جائزہ لیاجائے تو اس دوران میں صوبے اور وفاق میں برسراقتدار آنے والی منتخب حکومتیں ہوں یا پھر نگران ‘ صوبے کے مسائل کو حل کرنے میں کسی بھی حکمران نے آئینی تقاضوں کے مطابق سلوک توایک طرف(جوصوبے کا حق بنتا ہے) کہیں سے ہمدردانہ رویہ بھی دکھائی نہیں دیا ‘ صوبے کے حقوق کے حوالے سے سب سے اہم مسئلہ پن بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی ‘ قدرتی گیس کے معاملے میں روارکھا جانے والا نامناسب سلوک جس میں نہ صرف گیس کی آمدن میں حصہ اور آئین کے مطابق ترجیحی بنیادوں پر صوبے میں پیدا ہونے والی گیس کی پہلے صوبے کوفراہمی اورازاں بعد دیگر صوبوں کو اس سے استفادہ کی سہولت جبکہ تمباکو سیس کے ضمن میں صوبے کو اس کا جائزحق دینے کے معاملات کے علاوہ دیگر شعبوں میں صوبے کو اس کے آئینی و قانونی حق کی ادائیگی ایسے معاملات ہیں جن پر ہمیشہ سوالیہ نشان ہی ثبت ہوتے رہے ہیں ‘ ان تمام حوالوں سے صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ مرکز کی جانب سے جو سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے ان کی تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ یہ کوئی پوشیدہ یاخفیہ حقائق نہیں ہیں بلکہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں اور ان کے ثبوت کے لئے گزشتہ کئی سال سے صوبے میں برسراقتدار رہنے والی حکومتوں کے دوران متعدد بارپارلیمانی جرگے بنا کر کبھی منت ترلے اور کبھی احتجاج کی راہ اختیار کی گئی ‘ ایم ایم اے اور اس کے بعداے این پی و دیگر مخلوط حکومتوں کے ادوار میںمرکز کے ساتھ این ایف سی ایوارڈ اور دیگر مدات میں روا رکھی جانے والی زیادتیوں پر محولہ حکومتوںکی جانب سے احتجاجی جدوجہد کے علاوہ تحریک انصاف حکومت کے نوسالہ اقتدار کے دوران جس طرح صوبے کے جائز آئینی اورقانونی حقوق کو سبوتاژ کیا جاتا رہایہاں تک کہ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم خود اپنی ہی صوبائی حکومت کو لالی پاپ دے کر بلکہ ایک پشتو محاورے کے مطابق دریا کے دونوں کناروںکے کبھی ایک جانب اور کبھی دوسری جانب اچھل کود پر مجبور کرتی رہی اور صوبے کے جائز حقوق کی ادائیگی میں روڑے اٹکاتی رہی ‘ یہاں تک کہ اس وقت کے ناروا سلوک کے بارے میں تحریک انصاف کے سابق رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ان دنوں اپنے بیانات میں اس دور میں بانی تحریک انصاف کے ”ناروارویئے” کوبے نقاب کر رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اتحادی جماعتوں کے دوسالہ دورمیں بھی خیبر پختونخوا کے عوام کی قسمت نہ بدل سکی اور صوبے کے جائز آئینی حقوق کی بازیافت کے لئے کوئی اقدام سامنے نہ آسکے اور صوبے کی مالی مشکلات پہلے سے بھی بدتر صورت اختیار کرتے چلے گئے ‘یہاں تک کہ کئی بار صوبے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی بھی مشکلات کا شکار رہی اور وفاق نے ایمرجنسی میں فنڈز فراہم کرکے صوبے کو مشکل صورتحال سے باہر نکالا اب ایک بار پھر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے وفاق کے ذمے بقایاجات کی ادائیگی اورمالی مسائل کے حل کے لئے وفاقی سیکرٹری خزانہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیکرپن بجلی کے خالص منافع اور تیل وگیس کی رائیلٹی کی مد میںادائیگیوں کے لئے سفارشات مرتب کرنے کے حوالے سے جواقدام اٹھایا ہے اسے ایک بہت بڑے لالی پاپ سے تشبیہ دینے میں ہمیں کوئی تامل نہیں ہے اس لئے کہ فیصلہ شدہ معاملات کوایک بار پھر کمیٹی کے سپرد کرنا ‘ گونگلوئوں سے گرد جھاڑنے سے زیادہ کچھ بھی وقعت حاصل نہیں ہے’ پن بجلی خالص منافع کا فیصلہ اے جی این قاضی فارمولے کے تحت عرصہ ہوا ہو چکاہے جسے نہ صرف سپریم کورٹ نے آخری فیصلے سے نوازا ہے بلکہ صدرمملکت کی جانب سے بھی اسے تحفظ حاصل ہے۔اسی طرح قدرتی گیس کی تقسیم اور منافع کا بھی آئین کے تحت فیصلہ کیا جا چکا ہے جبکہ این ایف سی ایوارڈ کا قضیہ بھی آئین کے تحت طے شدہ ہونے کے باوجود صوبے کو اس کے جائز حق کی ادائیگی پرسوال اٹھ رہے ہیں اور اب نگران وزیراعظم نے ایک بار پھر ادائیگیوں کے لئے کمیٹی بنا کر صوبے کوٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے جس پر حیرت اورافسوس کا اظہار کئے بناء نہیں رہا جاسکتا ‘حیرت اس بات پربھی ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے اس حوالے سے سر جھکانے کی روش اختیار کی گئی ہے زیادہ مناسب تھا کہ وہ اس پر صوبے کے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرتے صوبے کوان دنوں جن مالی مشکلات کا سامنا ہے ان کاتقاضاتو یہ ہے کہ صوبے کو اس کے جائز اورقانونی حق کے مطابق بقایاجات کی ادائیگی کے لئے تاخیری حربے کے طور پرکسی کمیٹی کی تشکیل کے بجائے فوری ادائیگی کے لئے اقدام اٹھائے جائیںتاکہ صوبہ مسائل کے دلدل سے باہر آسکے ‘ نہ کہ یہ معاملہ تاخیری حربوں کے ذریعے آنے والے انتخابات کے بعد نئی قائم ہونے والی حکومتوں کے سپرد کیا جائے جبکہ آنے والی منتخب حکومتیں ایک بارپھر اس پرغور و خوض کے لئے مزید کئی مہینے لگا سکتی ہیں جوصوبے کے ساتھ انتہائی نامناسب سلوک قرار دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟