آپ ”بھی” اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

صوبے میں حکمران جماعت کے ایک ایم پی اے کی جانب سے پشاور میں ایک گرڈ سٹیشن پر اپنے حامیوں کے ساتھ دھاوا بول کر گرڈ سٹیشن کا کنٹرول سنبھالنے اور تمام فیڈرز پر بجلی بحال کرنے کے 2،3 گھنٹے بعد واپس جانے کو اصولی ،اخلاقی ،قانونی اور سیاسی طور پر درست قرار نہ دینے کے باوجود اس کے دوسرے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ایک جانب گزشتہ دنوں آزاد کشمیر میں اسی نوع کے اجتماع اور مظاہروں کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی یونٹ 3روپے مقرر کرنے اور دیگر مراعات کا اعلان کرنے کے بعد پورے ملک میں بجلی کی قیمتوں کو آزاد کشمیر کی سطح پر لانے کے مطالبات زور پکڑ گئے ہیں، جبکہ خیبر پختونخوا میں روز افزوں لوڈ شیڈنگ سے عوام میں غم و غصے کی کیفیت کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور مہنگی ہوتی ہوئی بجلی کی عدم فراہمی سے عوام کے اندر احتجاج کی صورتحال بھی نقطہ عروج پر پہنچ جانے کے بعد اگرچہ محولہ ایم پی اے اور حامیوں کے اس اقدام کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا مگر قابل غور ضرور سمجھا جا سکتا ہے، جس کی ذمہ داری وفاقی حکومت کے حالیہ فیصلے پر جو آزاد کشمیر میں کیا گیا ڈالی جا سکتی ہے، اس کے باوجود قانون کو ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز نہیں ہے، اس قسم کی” عوام پسند ”حرکتوں سے وقتی طور پر سیاسی فائدہ تو اٹھایا جا سکتا ہے مگر یہ قومی مفاد میں ہرگز نہیں ہے، ایم پی اے صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ صوبائی اسمبلی کے فلور پر تحریک استحقاق کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرتے ہوئے اپنے جائز مطالبات وفاق تک پہنچا کر عوام کے سامنے”سرخرو” ہونے کی تدبیر کرتے نہ کہ قانون کو ہاتھ میں لے کر غلط روایات قائم کرتے ۔وما علینا الا البلاغ

مزید پڑھیں:  وزیراعظم کا قوم سے خطاب